متفرقات

ٹیلی پیتھی کا تفصیلی تعارف، تاریخی پس منظر اور سائنسی جائزہ

ٹیلی پیتھی (Telepathy) انسانوں کے مابین اس ذہنی رابطے کو کہتے ہیں جس میں دو یا زیادہ افراد باہم سوچوں، جذبات یا دماغی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے کو پیغامات بھیجتے اور وصول کرتے ہیں، وہ بھی کسی مادی وسیلے (آواز، لمس، تحریر وغیرہ) کے بغیر۔ یہ تصور صدیوں سے متجسس اذہان کو حیران بھی کرتا آ رہا ہے اور متوجہ بھی۔ بعض لوگ ٹیلی پیتھی کو ایک قابلِ تربیت روحانی یا ذہنی صلاحیت مانتے ہیں، جبکہ سائنسی دنیا اسے Parapsychology کے زمرے میں رکھتی ہے جہاں آج بھی اس کے حقیقی وجود اور درست میکانزم پر تحقیقی بحث جاری ہے۔

اس پہلی قسط میں ہم ٹیلی پیتھی کی بنیادی وضاحت، تاریخی جھلک اور اس کے مذہبی و سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ یہ موضوع آخر اتنا دلکش کیوں ہے۔ اس موضوع پر اگر آپ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب کی کتاب ” ٹیلی پیتھی سیکھئے ” کا مطالعہ کریں تو کافی مفید

اہم نکات پر ایک نظر

  • ٹیلی پیتھی کا لغوی مفہوم اور مختلف روایات میں اس کا وجود
  • قدیم و جدید تاریخ میں ٹیلی پیتھی کے شواہد اور تحقیقات
  • مذہبی اور روحانی نقطۂ نظر سے اس کی تشریح
  • سائنسی نقطۂ نظر: قابلِ تکرار تجربات، نیوروسائنس اور ESP کے تجربات
  • ٹیلی پیتھی سیکھنے کے ممکنہ فوائد اور احتیاطی تدابیر

ٹیلی پیتھی کیا ہے؟


ٹیلی پیتھی دو یونانی الفاظ کا مرکب ہے:

  • Tele (دوری یا فاصلہ)
  • Pathy (احساس یا محسوس کرنے کا عمل)

اس طرح اس کا عمومی مطلب بنتا ہے: “دوری سے احساس حاصل کرنا یا منتقل کرنا”۔

قدیم تہذیبوں سے لے کر جدید دور تک، انسان کے اندر ہمیشہ یہ تجسس رہا کہ کیا ہمارے اذہان کسی نہ کسی لطیف نظام (Subtle Energy System) کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں؟ اس ضمن میں ہم ذہنی رابطہ اور دماغی لہروں کا ذکر کرتے ہیں، جن کا مطالعہ نیوروسائنس (Neuroscience) کے ماہرین مختلف زاویوں سے کرتے آئے ہیں۔

اکثر پوچھے جانے والے سوالات (FAQ)


کیا ٹیلی پیتھی ہر شخص سیکھ سکتا ہے؟
کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یکسوئی، مراقبے اور مستقل مزاجی کی مشقوں سے بہت سے لوگ اس صلاحیت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
کیا ٹیلی پیتھی واقعی ممکن ہے؟
سائنسی طور پر حتمی ثبوت دستیاب نہیں، لیکن متعدد تجربات ایسے نتائج فراہم کرتے ہیں جن سے یہ موضوع مکمل طور پر رد بھی نہیں کیا جا سکا۔

تاریخی جھلک

(ا) قدیم دور کے اشارات


یونانی فلسفی مختلف روحانی اور نفسیاتی قوتوں پر بحث کیا کرتے تھے جن میں سوچوں کی منتقلی بھی زیرِ موضوع رہتی۔
مشرقی روایات (ہندومت، بودھ مت) میں روحانی استاد اور شاگرد کے مابین ذہنی ہم آہنگی کی مثالیں ملتی ہیں۔


(ب) انیسویں صدی اور باقاعدہ اصطلاح


انگریزی میں “ٹیلی پیتھی” کی اصطلاح 19ویں صدی کے اواخر میں وضع ہوئی۔
اس دور میں سوسائٹی فار سائیکیکل ریسرچ (Society for Psychical Research) قائم ہوئی جس نے خواب، وژنز اور ٹیلی پیتھی جیسے مظاہر کا باقاعدہ تحقیقی جائزہ لیا۔


(ج) 20ویں صدی کی تحقیقات


ڈاکٹر جے بی رائن (J. B. Rhine) اور ان کے ساتھیوں نے زینر کارڈز (Zener Cards) کی مدد سے ٹیلی پیتھی اور دیگر اضافی حسی ادراک (ESP) کے تجربات کیے۔
کئی بار نتائج حوصلہ افزا نکلے لیکن بار بار کے تجربات میں یکساں نتائج اخذ نہیں کیے جا سکے، جس کے سبب سائنسی کمیونٹی میں بحث برقرار رہی۔


(د) مشرقی صوفیہ اور یوگی


صوفیاء اور دیگر روحانی شخصیات کے یہاں “دل کی بات جان لینے” اور مرید کے باطن سے آگہی کی روایات پائی جاتی ہیں، جنہیں عام طور پر کشف یا فراسۃ المؤمن کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔
ہندو یوگی اور بدھ بھکشو بھی گہرے مراقبہ کی حالت میں ذہنی رابطے اور باطنی معلومات کے تبادلے کی بات کرتے ہیں۔

3) مذہبی اور روحانی پہلو 

مختلف مذاہب اور روحانی مکاتبِ فکر میں ٹیلی پیتھی سے ملتی جلتی صلاحیتوں کا ذکر ملتا ہے۔ ان تعلیمات میں عام طور پر روحانی ترقی، اندرونی سکون اور ایک وسیع کائناتی شعور سے ہم آہنگی کی بات کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر:

اسلامی تصوف: بہت سے اولیاء اور صوفیاء کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں مرید کے دل کی کیفیت کا علم ہو جاتا تھا۔
یوگا اور بدھ مت: گہرے مراقبے کے ذریعے تیسری آنکھ کو فعال کرنے اور باطنی قوتوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بعض علما اور روحانی ماہرین کا ماننا ہے کہ ہر انسان کے اندر ایک لطیف برقی مقناطیسی میدان (electromagnetic field) موجود ہوتا ہے جو کسی خاص درجے پر جا کر دوسروں سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ نظریات جدید سائنس کی مکمل توثیق کے منتظر ہیں۔


4) سائنسی نقطۂ نظر: تجربات اور تحقیقات


سائنس کسی بھی دعوے کی تصدیق کے لیے قابل تکرار تجربات اور اعدادی شواہد (quantitative evidence) کی متقاضی ہے۔

(الف) ESP اور زینر کارڈز کے تجربات


زینر کارڈز پر بنے نشانات کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور وصول کنندہ سے پوچھا جاتا ہے کہ کارڈ پر کیا نشان ہے۔
بعض اوقات نتیجہ حیرت انگیز حد تک درست نکلتا ہے، لیکن بہت سے سائنسدان اسے اتفاق یا اضافی عوامل قرار دیتے ہیں۔
(ب) نیوروسائنس (Neuroscience)


EEG اور fMRI جیسے جدید ٹولز سے دماغی لہروں کے تال میل کو سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تا حال کوئی ایسا مکینزم دریافت نہیں ہو سکا جو حتمی طور پر ٹیلی پیتھی کو ثابت کر سکے، تاہم ریسرچ کا سلسلہ جاری ہے۔


(ج) سائنسی تنقید اور احتیاط


زیادہ تر ماہرین کہتے ہیں کہ Peer Review مراحل میں ٹیلی پیتھی کے حق میں مستقل نتائج سامنے نہیں آتے، اس لیے اس پر مزید تحقیق ضروری ہے۔
سائنسی اور روحانی مکاتبِ فکر کے درمیان ایک کمیونی کیشن گیپ بھی موجود ہے، جسے پاٹنے کی ضرورت ہے۔

 

5) ٹیلی پیتھی سیکھنے کے فوائد اور عملی افادیت


اگرچہ ٹیلی پیتھی کی حتمی تصدیق نہیں ہوئی، پھر بھی اس کی مشقوں سے کئی ذہنی اور روحانی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں:

یکسوئی اور توجہ میں اضافہ:


مراقبہ اور تصور (visualization) جیسے طریقے دماغ کو مضبوط کرتے ہیں۔

تخیل اور تخلیقی سوچ:


خیالات کی تشکیل اور ان کی ترسیل پر توجہ دینے سے تخلیقی صلاحیت میں بہتری آ سکتی ہے۔

روحانی سکون اور باطنی تعلق:


جو لوگ روحانی انداز میں ان مشقوں کو اپناتے ہیں، انہیں اندرونی سکون اور گہری خود آگاہی ملنے کی توقع ہوتی ہے۔

جذباتی استحکام:


مراقبہ اور دماغی ارتکاز کی مشقیں مزاج کو معتدل اور پرسکون رکھنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔

موجودہ قسط ایک مختصر تعارف کے طور پر پیش کی گئی ہے اگلی اقساط میں ہم مزید گہرائی کے ساتھ مندرجہ ذیل موضوعات کا احاطہ کریں گے ان شاء اللہ ۔ 


1۔ ٹیلی پیتھی پر کام کرنے والی مشہور شخصیات

  • مغربی پیراسائیکولوجسٹس اور ان کی تحقیقات
  • مشرقی صوفیاء ، یوگیوں اور ان کے روحانی ورثہ

2۔ عملی مشقیں اور ٹریننگ

  • مراقبے کے بنیادی اصول اور یکسوئی کے طریقے 
  • خیالات کی ترسیل اور وصول کرنے کی مرحلہ وار مشقیں
  • زینر کارڈز اور دیگر آزمودہ مشقوں کے مفصل طریقہ کار

3۔ کامیابی کے عوامل اور ممکنہ رکاوٹیں

  • جذباتی استحکام اور نیت intention کی اہمیت
  • شعوری اور لاشعوری قوتوں کا امتزاج 
  • سائنسی حدود اور فطری خدشات

4۔ سوال و جواب

  • ٹیلی پیتھی کے حق میں اور مخالفت میں موجود دلائل 
  • مذہبی ، اخلاقی اور سماجی اثرات کا جائزہ

5 ۔ احتیاطی تدابیر

  • غیر حقیقی دعوؤں اور افواہوں سے کیسے محفوظ رہیں؟
  • ذہنی اور روحانی صحت کا خیال رکھتے ہوئے توازن کیسے برقرار رکھا جائے ؟

یہ تحریر آپ کو ٹیلی پیتھی کے پراسرار اور دل چسپ جہان میں داخل ہونے کا ایک ابتدائی راستہ فراہم کرے گی ۔ ہمارا مقصد سائنسی ، روحانی اور تاریخی پلوؤں کی روشنی میں اس موضوع کا جامع جائزہ پیش کرنا ہے اگر آپ اس حوالے سے مزید سیکھنے کے خواہاں ہیں تو ہماری اگلی اقساط کا انتظا کریں اور اپنے خیالات یا سوالات کمینٹس میں شئیر کریں ۔ 
آپ کے سوالات  یا آراء ہمارے لئے بہت اہم ہیں اگر کچھ واضح نہیں ہوا یا آپ مزید تفصیل چاہتے ہیں تو ضرور بتائیں ۔ اس سفر میں ہم مل کر ٹیلی پیتھی کے دلچسپ پہلوؤں کو دریافت کریں گے اور دیکھیں گے کہ آیا یہ محض ایک خیال ہے یا واقعی ایک قابل مشاہدہ حقیقت ۔ 

author avatar
Roohani Aloom
روحانی علوم ڈاٹ کام ایک ادارہ ہے جس نے دنیا میں پہلی بار سنہ 2004ء سے انٹرنیٹ پر اردو زبان میں علوم روحانی کی ترویج کا سلسلہ جاری کیا اور اس جدید دور میں اسلاف کے علوم کو جدید طرز پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔

Roohani Aloom

روحانی علوم ڈاٹ کام ایک ادارہ ہے جس نے دنیا میں پہلی بار سنہ 2004ء سے انٹرنیٹ پر اردو زبان میں علوم روحانی کی ترویج کا سلسلہ جاری کیا اور اس جدید دور میں اسلاف کے علوم کو جدید طرز پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close

ایڈ بلاک کا استعمال پایا گی

محترم قارئین، ہماری یہ ویب سائٹ ایک خدمت کے جذبے کے تحت آپ کے لیے مخفی و روحانی علوم کے مضامین بالکل مفت فراہم کر رہی ہے۔ ہمارا مقصد اس علم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے، اور اس کے بدلے ہم آپ سے کسی قسم کی مالی مدد نہیں لیتے۔ البتہ، ہماری اس کوشش کو جاری رکھنے کے لیے اشتہارات کا سہارا لینا ضروری ہے، تاکہ ہم اس پلیٹ فارم کو برقرار رکھ سکیں اور آپ تک بہترین مواد پہنچاتے رہیں۔ آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ ہماری ویب سائٹ پر ایڈ بلاکر کو عارضی طور پر غیر فعال کر دیں۔ یہ ایک چھوٹا سا تعاون ہوگا، لیکن ہمارے لیے بہت بڑی مدد ثابت ہوگا۔ جزاک اللہ خیراً