طلسم خانہ فرحانہ ۔۔۔۔ تیسری قسط
ایک پراسرار کہانی جہاں محبت، سحر، اور تقدیر کی کشمکش حقیقت کے پردے چاک کرتی ہے
طلسم خانہ فرحانہ
ایک ایسی کہانی جس کی حقیقت کا کوئی ادراک نہ کر سکا
یہ کہانی، جو حقیقت اور فکشن کے درمیان ایک باریک لکیر پر چلتی ہے، نے اپنی ابتدا ہی سے قارئین کو سحر میں جکڑ لیا تھا۔ لیکن شاید یہ محض ایک کہانی نہیں تھی—یہ کچھ ایسا تھا جو مصنفہ بنتِ حلیمہ اور ان کے اہل خانہ کی زندگیوں میں ایک پراسرار باب کھول گیا۔
کہانی کی ابتدائی دو اقساط نے قارئین کی بے حد توجہ حاصل کی، مگر جیسے ہی یہ اقساط شائع ہوئیں، مصنفہ اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ عجیب و غریب اور ناقابلِ بیان واقعات رونما ہونے لگے۔ رات کے وقت نامعلوم آوازیں، دیواروں پر سایوں کا ظہور، اور ایسے خواب جو حقیقت کی طرح محسوس ہوتے، ان سب نے نہ صرف مصنفہ بلکہ ان کے خاندان کو بھی خوف میں مبتلا کر دیا۔
ان پراسرار حالات کے سبب کہانی لکھنے کا سلسلہ رک گیا۔ کئی مہینے بیت گئے، اور بنتِ حلیمہ نے اس موضوع کو چھونے کی ہمت بھی نہیں کی۔ مگر وقت کے ساتھ، جب زندگی معمول پر آنے لگی اور مصنفہ نے ان واقعات سے سنبھلنا شروع کیا، تو انہوں نے اپنے قلم کو دوبارہ اٹھایا۔
"طلسم خانہ فرحانہ” کی یہ کہانی ایک بار پھر مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر یہ کہانی صرف پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ شاید سمجھنے کے لیے بھی ہے۔ کیونکہ اس کے ہر موڑ پر کچھ ایسا چھپا ہے جو ایک عام نظر سے پرے ہے۔
کیا یہ صرف ایک اتفاق تھا؟ یا اس کہانی کی گہرائیوں میں کچھ ایسا راز پوشیدہ ہے جسے کوئی سمجھ نہ پایا؟
پڑھیے اور ان رازوں کو دریافت کیجیے، جو "طلسم خانہ فرحانہ” میں پوشیدہ ہیں۔
کمال کی حالت ہر گزرتے دن کے ساتھ پھر سے بگڑنے لگی تھی جبکہ رفیقہ بائی کی تمام تجویز کردہ ہدایات پر ریحان مکمل طور سے عمل پیرا تھا ۔ ریحان، رفیقہ بائی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کمال کی دن بہ دن بگڑتی حالت کے حوالے سے رفیقہ بائی کو سب کچھ بتانے لگا رفیقہ بائی نے ریحان سے کہا کے فکر نہ کرے کمال ٹھیک ہو جائے گا مگر ریحان کیسے فکر نہ کرتا ؟۔۔۔۔جب بھی خوشیاں قریب آنے کو ہوتی ہی ہیں کہ کچھ نہ کچھ ایسا ہو ہی جاتا ہے کہ آتی ہوئی خوشیاں آنے سے پہلے ہی روٹھ جاتی ہے ابھی کچھ دن پہلے ہی ریحان نے عرصہ بعد سکون کا سانس لینا شروع ہی کیا تھا کہ کمال بہتر ہونے لگا ہے بلکہ کافی حد تک بہتر ہو چکا ہے تو اس اطمینا ن کے ساتھ ریحان نے اپنی خوشیوں کے بارے میں سوچنا شروع ہی کیا تھا کہ اب ریحان کو شادی کر لینی چاہیے اُس لڑکی سے جسے وہ دل ہی دل میں دل و جان سے زیادہ چاہنے لگا ہے اس سے پہلے کے اظہار محبت میں بہت دیر ہو جائے مگر جونہی ریحان نے اپنی کوشش کی شروعات کی یہ سوچ کر کہ سب سے پہلے حلیمہ آپا سے ساری بات کرنی چاہیے وہ بڑی بھی ہیں اور ریحان انکے کافی قریب بھی تو وہ یقینا کوئی بہترین راہ دکھائے گی ــــ مگر تمام تر سوچیں فقط سوچ ہی رہ گئیں اور وقت کی ستم ظریفی ایسی جسکے آگے انسان بے بس ہو جاتا ہے نہ تو حلیمہ آپا سے پوری طرح بات ہو سکی نہ ہی اس دوران ریحان اپنی محبت شہناز سے اظہار محبت کر سکا الٹا کمال کی بہتر ہوتی ہوئی حالت دوبارہ سے بگڑنا شروع ہو گئی اب ریحان کو اس کے سوا اور کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ رفیقہ بائی سے کمال کے حوالے سے رہنمائی حاصل کرے۔
اور رفیقہ بائی نے جواب دیا کہ فکر نہ کرو ریحان! کمال ٹھیک ہوجائے گا ۔۔۔ مگر اس وقت ریحان کا ذہن مکمل طور پر سوچوں کے جال میں بُری طرح اُلجھا ہوا تھا کمال ٹھیک ہو جائے گا لیکن کمال تو کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔ پھر واپس کیوں؟۔۔۔ بجائے مزید ٹھیک ہونے کے دوبارہ پہلے والی حالت میں جانے لگا؟۔۔۔ انہی سوچوں میں اُلجھتے ہوئے ریحان نے رفیقہ بائی سے حاضری بُلانے کی درخواست کی پہلے تو رفیقہ بائی نے صاف انکار کر دیا لیکن پھر ریحان کے بے حد اصرار پر حاضری بُلانے کے لئے راضی ہو گئی ۔ اب جبکہ رفیقہ بائی پر حاضری آچکی تھی ریحان نے کمال کے حوالے سے سوال کرنا شروع ہی کیا تھا کہ دوران حاضری جواب ملا ہمیں سب پتہ ہے تو ریحان نے کہا کہ پھر بتائیے کمال کی حالت جب ٹھیک ہورہی تھی تو دوبارہ سے کیوں بگڑنا شروع ہو گئی؟ ریحان کی یہ بات آئی ہوئی حاضری کو ناگوار گزری آئی ہوئی
حاضری کچھ غصے میں محسوس ہونے لگی اور ریحان سے کہا کہ تم کون ہوتے ہو ہم سے سوال کرنے والے ریحان نے کہا میں کوئی نہیں ہوتا اور نہ تو میں سوال کر رہا ہوں میں تو التجا کر رہا ہوں آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ ریحان کے اس جواب پر آئی ہوئی حاضری مزید غصے کا شکار ہو گئی اور ریحان سے کہا کہ جاؤ صحیح کروا لو اب کمال ساری زندگی، کروا سکتے ہو تو۔۔۔۔
ریحان وضاحتیں دیتا رہ گیا کہ اُسکا مقصد آئی ہوئی حاضری کو غصہ دلانا ہر گز نہیں مگر آئی ہوئی حاضری ریحان کی کوئی بات سُننے کو تیار نہ تھی باالآخر ریحان کو بھی غصہ آنے لگا اور ریحان سے وہ ہو گیا جو کہ شاید نہیں ہونا چاہیے تھا غصہ کی حالت میں ریحان نے کچھ بدتمیزی کر دی اب تک جو حاضری یہ کہہ رہی تھی کہ جاؤ صحیح کروا لو کمال کو ساری زندگی کروا سکتے ہو تو ۔۔۔۔ ریحان کی بدتمیزی کے بعد کہنے لگی کہ اب تم خود زیادہ دن جی کر دکھاؤ اور یہ کہتے ہوئے حاضری رخصت ہو گئی حاضری کے رخصت ہونے کے بعد رفیقہ بائی کا مزاج بھی کچھ اچھا نظر نہیں آرہا تھا بحر حال ریحان نے خاموشی اختیار کرتے ہوئے بہتر جانا کے اب اٹھ کر چلے جانا چاہیے اور ایسا ہی کیا ۔
ا ب تو رفیقہ بائی کی تسلی بھی زندگی سے جیسے جا ہی چکی تھی دن گزرتے رہےاور کمال کی حالت اب بالکل پہلے جیسی ہو چکی تھی اور ریحان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو چلا تھا رفیقہ بائی نے حلیمہ کو ریحان کی دورانِ حاضری کی گستاخی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا، جس کے بعد حلیمہ بار بار ریحان کو قائل کرنے کی کوشش کرتی کہ وہ جا کر رفیقہ بائی سے معافی مانگ لے۔ مگر ریحان کسی صورت ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اس کا پختہ یقین تھا کہ اللہ کی ذات سب سے بلند ہے، اور جو نصیب میں لکھا ہے، وہی ہو کر رہے گا۔
اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ کمال، جو نہایت کم ہی گھر سے باہر جاتا تھا، اور اگر کبھی جاتا بھی تو ریحان کے ہمراہ، اب گھر پر موجود نہیں ہے۔ ریحان نے فوراً باہر جا کر کمال کو ہر ممکن جگہ پر تلاش کیا، مگر کمال کا کہیں کوئی سراغ نہ ملا۔ مایوسی کے عالم میں، ریحان آخر کار حلیمہ آپا کے گھر پہنچا اور بتایا:
"کل رات سے کمال غائب ہے۔ میں نے ہر جگہ تلاش کر لیا، مگر نہ تو کسی نے اسے دیکھا ہے اور نہ ہی کوئی خبر ملی ہے۔”
یہ سن کر حلیمہ آپا سخت پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے ریحان کو گھبراہٹ کے ساتھ یاد دلایا:
"میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ رفیقہ بائی سے معافی مانگ لو، لیکن تم نے میری بات نہیں مانی۔ اب جاؤ، فوراً رفیقہ بائی کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی طلب کرو۔ یقین کرو، اس کے بعد کمال ضرور مل جائے گا!” مگر ریحان نے صاف کہہ دیا:
"میں رفیقہ بائی سے معافی نہیں مانگوں گا۔”
لگتا تھا کہ ریحان نے دل ہی دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا یا ضد باندھ لی تھی۔ حلیمہ آپا نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ کسی صورت ماننے کو تیار نہیں ہوا۔
مایوس ہو کر حلیمہ خود ہی رفیقہ بائی کے پاس چلی گئیں۔ وہاں پہنچ کر وہ بے حد منت سماجت کرنے لگیں، بےتحاشا روئیں، اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا:
"رفیقہ بائی، میں اپنے بھائی ریحان کی طرف سے آپ سے معافی مانگتی ہوں۔ وہ نادان ہے، آپ اس کی گستاخی کو معاف کر دیں۔ ہماری مدد کریں، کمال نجانے کہاں غائب ہو گیا ہے۔ کچھ ایسا کریں کہ وہ مل جائے۔”
حلیمہ کی اس درد بھری التجا پر رفیقہ بائی نے گہری سانس لی اور کہا:
"ریحان نے گستاخی کر کے اچھا نہیں کیا تھا، لیکن بہرحال کمال مل جائے گا۔ تم فکر نہ کرو۔”
یہ کہہ کر رفیقہ بائی نے آنکھیں بند کیں اور کچھ پڑھنے لگیں۔ چند لمحوں کے بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں اور کہا:”جاؤ، فلاں جگہ دیکھو۔ کمال وہیں ہوگا۔”
جو جگہ انہوں نے بتائی، وہ کراچی کا مشہور ساحلی علاقہ منوڑہ تھا۔ حلیمہ نے دل کی گہرائی سے رفیقہ بائی کا شکریہ ادا کیا اور فوراً گھر واپس آ کر ریحان سے کہا:
"تم بھلے ماننے سے انکار کرتے رہو، لیکن رفیقہ بائی واقعی ایک پہنچے ہوئے درجے کی ہستی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کمال کہاں ہے۔ بغیر وقت ضائع کیے فوراً منوڑہ جاؤ، تمہیں کمال وہیں ملے گا!”
ریحان، جو پہلے ہی ذہنی الجھن کا شکار تھا، مزید کچھ کہنا یا سوال کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ فوراً کھڑا ہوا اور بغیر وقت ضائع کیے چل دیا۔ منوڑہ پہنچ کر، وہ حیرت سے ٹھٹھک گیا، کیونکہ کمال بالکل سامنے کھڑا تھا۔ کمال کو دیکھ کر ریحان کے لبوں سے بے اختیار نکلا:
"یا اللہ! تیرا شکر!”
ریحان تیزی سے کمال کی جانب بڑھا۔ لیکن قریب پہنچ کر اسے محسوس ہوا کہ کمال بالکل بھی اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہے۔ بمشکل ریحان اسے سہارا دے کر اپنے ساتھ گھر لے آیا۔ گھر پہنچ کر ریحان سوچ میں پڑ گیا:
"کیا یہ سب میری گستاخی کی سزا ہے؟ دورانِ حاضری جو بدتمیزی کی تھی، کیا اسی وجہ سے کمال غائب ہوا؟ اور وہ ملا بھی تو وہیں، جہاں رفیقہ بائی نے بتایا تھا۔ کیا مجھے واقعی رفیقہ بائی سے معافی مانگ لینی چاہیے؟”
یہ خیالات ابھی ریحان کے ذہن میں گردش کر ہی رہے تھے کہ اسے اچانک متلی محسوس ہونے لگی۔ ساتھ ہی پیٹ میں شدید درد اٹھا، ایسا درد جو اب تک اس نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ حالانکہ یہ درد اسے پچھلے کئی دنوں سے ہو رہا تھا، مگر یہ خود بخود ٹھیک ہو جایا کرتا تھا۔ لیکن اس بار درد اتنا ناقابل برداشت تھا کہ ریحان کو لگا یہ معاملہ معمولی نہیں ہے۔
ریحان نے سوچا:
"گھر میں پہلے ہی اتنی پریشانیاں ہیں—کمال کی حالت، بہنوں کی شادی، اور مالی حالات—ایسے میں اپنی بیماری کا ذکر کر کے گھر والوں کو مزید فکر مند کیوں کروں؟ بہتر یہی ہے کہ خود ہی ڈاکٹر کے پاس جا کر معائنہ کروا لوں۔”
یہ فیصلہ کرتے ہی وہ اسی دن اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس پہنچا، جن کا کلینک گھر کے قریب ہی واقع تھا۔ ریحان نے ڈاکٹر کو اپنی حالت کے بارے میں بتایا:
"کئی دنوں سے معدہ میں درد ہو رہا ہے، لیکن آج تو درد کے ساتھ متلی اور الٹیاں بھی ہوئیں، اور شدت اتنی تھی کہ برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔”
ڈاکٹر نے پوری توجہ سے بات سنی اور معائنہ کرنے کے بعد ریحان کو کچھ دوائیں تجویز کیں۔ ساتھ ہی کچھ ٹیسٹ بھی لکھ کر دیے اور کہا:
"یہ ٹیسٹ فوراً کروالو، دن ضائع نہ کرو۔”
ریحان نے حیرانی سے پوچھا:
"ڈاکٹر صاحب، معمولی سے درد کے لیے اتنے سارے ٹیسٹ؟”
ڈاکٹر نے سنجیدگی سے جواب دیا:
"ریحان، اکثر اوقات وہ چیزیں جو ہمیں معمولی لگتی ہیں، حقیقت میں بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں، اور بعض اوقات جان لیوا بھی۔ احتیاط ضروری ہے۔ اللہ نے چاہا تو سب ٹیسٹ کلیئر آئیں گے، لیکن وقت ضائع کیے بغیر یہ تمام ٹیسٹ کروانا بہت ضروری ہے۔”
ڈاکٹر کی بات سن کر ریحان کی تشویش مزید بڑھ گئی، مگر وہ جانتا تھا کہ اسے احتیاط کرنی ہوگی۔ وہ ٹیسٹ کروانے کے لیے روانہ ہو گیا، مگر دل میں بے شمار سوالات لیے، جن کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔
ریحان نے ڈاکٹر کی ہدایت پر تمام ٹیسٹ کروا لیے، اور اگلے روز شام کو رپورٹس بھی موصول ہو گئیں۔ چونکہ ریحان کا ماضی میں کمپاؤنڈر کے طور پر کام کرنے کا تجربہ تھا، اس لیے وہ رپورٹس کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ جب اس نے رپورٹس دیکھیں، تو اسے لگا کہ جیسے زمین اس کے پاؤں کے نیچے سے کھسک گئی ہو۔
پھر بھی، خود کو تسلی دی:
"شاید میں کچھ غلطی کر رہا ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ تو بس معمولی پیٹ درد ہے!”
اسی شب، وہ رپورٹس لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ جب ڈاکٹر صاحب رپورٹس کا جائزہ لے رہے تھے، تو ان کے چہرے پر واضح پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ ڈاکٹر، جو نہ صرف ایک ماہر طبیب تھے بلکہ ریحان کے فیملی ڈاکٹر اور والدہ کے دور کے رشتہ دار بھی تھے، اس خاندان کے مسائل سے بخوبی واقف تھے۔
ریحان نے ان کی طرف دیکھ کر پوچھا:
"ڈاکٹر صاحب، خیر تو ہے؟”
ڈاکٹر نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا:
"ریحان، میں جانتا ہوں کہ تم بہت بہادر ہو اور مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے کبھی ہمت نہیں ہارتے۔ اس کی سب سے بڑی مثال تمہارا بھائی کمال ہے۔ اگر تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا، تو کب کا کمال کو کسی پاگل خانے یا دماغی اسپتال میں داخل کروا چکا ہوتا۔ لیکن تم نے نہ صرف اسے سنبھالا، بلکہ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔”
ریحان الجھن میں پڑ گیا کہ ڈاکٹر صاحب یہ سب باتیں کیوں کر رہے ہیں۔ آخرکار ڈاکٹر نے بات واضح کی:
"مجھے شک تھا، اسی لیے میں نے یہ تمام ٹیسٹ کروانے کو کہا تھا۔ اب رپورٹس دیکھ کر لگ رہا ہے کہ میرا شک درست تھا۔ لیکن تمہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔”
ریحان نے بےچینی سے پوچھا:
"ڈاکٹر صاحب، مجھے صاف صاف بتائیں۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟”
ڈاکٹر نے تھوڑی دیر توقف کے بعد کہا:
"ویسے تو یہ بات مجھے تمہارے گھر والوں سے کرنی چاہیے، لیکن تمہاری ذمہ داریوں اور حالات کو دیکھتے ہوئے، یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ رپورٹس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تمہیں معدہ کا کینسر ہے۔”
یہ سن کر ریحان کے لیے دنیا جیسے تھم گئی۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ حالانکہ وہ خود بھی رپورٹس دیکھ چکا تھا اور شک گزرا تھا، مگر اس نے خود کو تسلی دی تھی کہ شاید وہ غلطی کر رہا ہے۔
ڈاکٹر نے مزید کہا:
"ابھی یہ بات مکمل طور پر حتمی نہیں ہے۔ اس کی تصدیق کے لیے تمہیں دو دن کے لیے اسپتال میں داخل ہونا ہوگا، جہاں مزید اہم ٹیسٹ کیے جائیں گے۔”
یہ سن کر ریحان کی پریشانی اور بڑھ گئی۔ اس نے بے اختیار کہا:
"ڈاکٹر صاحب، میں دو دن کے لیے اسپتال میں کیسے داخل ہو سکتا ہوں؟ کمال اور گھر کی ذمہ داری کون سنبھالے گا؟”
ڈاکٹر نے اسے نرمی سے سمجھایا:
"ریحان، میں جانتا ہوں تم پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں، لیکن ان سب کو نبھانے کے لیے تمہارا خود ٹھیک ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ اگر ابھی وقت پر قدم نہ اٹھایا گیا تو مسئلہ مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ جلد از جلد اسپتال میں داخل ہو جاؤ۔”
ریحان کے پاس کوئی اور راستہ نہ تھا، اس لیے اس نے ڈاکٹر کی بات مان لی۔ ڈاکٹر نے ایک ریفرنس لیٹر بھی دیا، تاکہ اسپتال میں داخلے میں آسانی ہو۔
گھر والوں کو کیا بتائے؟
ریحان گھر پہنچا تو ذہن میں طوفان برپا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ گھر والوں کو کیا کہے۔ آخر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ سچ بتانے کے بجائے ایک بہانہ بنا لے گا، کیونکہ سچائی بتانے سے گھر والے مزید پریشان ہو جاتے۔
ریحان نے والدہ اور بہنوں سے کہا:
"مجھے ایک بہت ضروری کام کے سلسلے میں دو دن کے لیے حیدرآباد جانا ہے۔ آپ لوگ کمال کا خیال رکھیں۔”
اگرچہ گھر والوں نے تشویش ظاہر کی، کیونکہ کمال کو سنبھالنا آسان نہیں تھا، لیکن وہ مان گئے اور کہا:
"ٹھیک ہے، لیکن دو دن میں واپس آ جانا۔”
ریحان کے دل میں جھوٹ بولنے کا دکھ تو تھا، لیکن اس کے خیال میں یہ فیصلہ گھر والوں کی بھلائی کے لیے تھا۔ اس نے دل ہی دل میں دعا کی کہ اللہ سب ٹھیک کر دے، لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ تقدیر کے فیصلے انسان کی منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
ریحان کی المناک حقیقت
اگلی صبح ریحان نے ہسپتال جانے کے لیے خود کو تیار کیا۔ وہ اکیلا ہی گھر سے نکلا اور ڈاکٹر کی دی گئی ہدایت کے مطابق ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ مختلف معائنے کیے گئے، مگر بائیوپسی کا ٹیسٹ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا، کیونکہ یہی ٹیسٹ ریحان کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والا تھا۔
چند دن بعد، رپورٹس آ گئیں۔ ان رپورٹس نے وہ خوفناک حقیقت آشکار کر دی جس کا سامنا کرنے کے لیے ریحان تیار نہیں تھا۔ بدقسمتی سے، اسے معدہ کا کینسر لاحق ہو چکا تھا، اور وہ بھی آخری اسٹیج پر۔ یہ مرض نہ صرف معدہ بلکہ جسم کے دیگر حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔
رپورٹ دیکھ کر ریحان کی دنیا اندھیروں میں ڈوب گئی۔ ایک لمحے میں اس کی تمام امیدیں، تسلیاں اور خواب بکھر گئے۔ اس کے ذہن میں کئی سوالات گردش کرنے لگے:
"میرے مرنے کے بعد کمال کا کیا ہوگا؟ میرے گھر والوں کا کیا ہوگا؟ میری بہنوں کی شادی کیسے ہوگی؟ اور وہ محبت، جس کا میں نے کبھی اظہار بھی نہیں کیا، کیا ہمیشہ میرے دل میں دفن رہے گی؟ کیا اسی لیے تقدیر نے مجھے خاموش رکھا تھا؟”
ریحان کے دل سے ایک آہ نکلی:
"ہائے یہ قسمت کی ستم ظریفی!”
سچائی کا سامنا
ریحان نے گھر والوں کو حیدرآباد جانے کا بہانہ بنا رکھا تھا، مگر ڈاکٹر نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی:
"ریحان، چاہے تم نہ چاہو، لیکن تمہیں اپنے گھر والوں کو اپنی بیماری کے بارے میں بتانا ہوگا۔ یہ بات ان سے چھپانے کا وقت نہیں۔”
ریحان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی زندگی کا آخری لمحہ قریب آ چکا ہے۔ ہر گزرتا لمحہ اسے زندگی سے مزید دور اور موت کے قریب لے جا رہا تھا۔
ریحان نے سوچا تھا کہ وہ ہسپتال میں صرف دو دن گزار کر واپس گھر چلا جائے گا، مگر حقیقت میں یہ سفر کبھی ختم ہونے والا نہ تھا۔
گھر والوں پر قیامت
ڈاکٹر نے بالآخر خود ہی ریحان کے گھر والوں کو اس کی بیماری کی سنگینی سے آگاہ کر دیا۔ یہ خبر سن کر گھر والوں پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہر کوئی گم صم تھا، نہ کسی کے پاس الفاظ تھے اور نہ ہی آنکھوں میں آنسو۔
ریحان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بن گیا۔ گھر والوں کے لیے یہ وقت ناقابلِ برداشت تھا، لیکن وہ اللہ کی مدد پر یقین رکھتے تھے۔
کمال کا صدمہ
ریحان کی بیماری کی خبر جب کمال تک پہنچی، تو اس نے بھی اپنی حالت پر قابو کھو دیا۔ وہ، جو پہلے ہی اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا، اب مزید بکھر گیا۔ ریحان کی حالت کو دیکھ کر اس کی خاموش اذیت مزید بڑھ گئی۔
آخری سفر
ڈیڑھ ماہ تک ریحان ہسپتال میں زیرِ علاج رہا، مگر اس کی حالت میں بہتری کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ پھر ایک دن اچانک اس کی طبیعت انتہائی خراب ہو گئی اور وہ کومہ میں چلا گیا۔ دو دن کے بعد، اس کی سانسوں نے ساتھ چھوڑ دیا، اور وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گیا۔
ریحان اپنی تمام تر پریشانیاں، فکریں، اور دل میں چھپائی ہوئی بےپناہ محبت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی جوان موت نے اس کے گھر والوں کو غم کے گہرے سمندر میں دھکیل دیا۔
مزید انکشافات کے لیے جڑے رہیں
ریحان کے بعد کیا ہوا؟
کمال کا انجام کیا ہوگا؟
رفیقہ بائی کے کرشمات کے پیچھے کی حقیقت کیا ہے؟
"طلسم خانہ فرحانہ” کی اگلی قسط میں ان تمام سوالات کے جواب جاننے کے لیے ہمارے ساتھ رہیں۔