تشخیص پر توجہ دیں ۔ تیسری قسط

تشخیص پر توجہ دیں: قلندر خان کی روحانی کہانی

"تشخیص پر توجہ دیں” ایک ایسی کہانی ہے جو انسانی زندگی کے گہرے رازوں اور روحانی تجربات کو بیان کرتی ہے۔ اس کہانی میں ہمیں قلندر خان کھوسو کی داستان سنائی جاتی ہے جو اپنی اولاد کی پیدائش کے بعد پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کا سامنا کرتا ہے۔ اس کہانی کا مقصد روحانی علوم کی اہمیت اور ان کے اثرات کو سمجھانا ہے۔

تعارف

قلندر خان کھوسو، کھوسو قبیلے کے ایک مشہور سردار، اپنی اولاد کی پیدائش کے بعد مسلسل مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ اس کی تین بیٹیاں ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا جاتی ہیں۔ قلندر خان کو شک ہے کہ کسی نے اس کے خلاف کالا جادو کیا ہے۔ اپنے مسائل کے حل کے لئے، وہ ایک روحانی شخصیت سے مدد طلب کرتا ہے۔ کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح روحانی تشخیص کے ذریعے ان مسائل کی جڑ تک پہنچا جاتا ہے اور قلندر خان کو اپنے اعمال کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قلندر خان کی آمد

وہ حجرے میں داخل ہوا تو میں نے اسے بطور خاص بہت غور سے دیکھا ، کھوسو قبیلے کا ایک سردار ہونے کیوجہ سے اس کی شہرت دور دور تک تھی ، ہزاروں ارادت مند اس کے ایک اشارے پر جان دینے کو آمادہ رہتے تھے ، دوسروے سردار اور وڈیروں کے مقابلے میں وہ زیادہ رحم دل اور اچھی شہرت کا مالک تھا ، اندر کا حال خدا ہی بہتر جانتا تھا ، اس کا نام قلندر خان کھوسو تھا ، مشہور سردار کھوسو ہی تھا ۔

اس نے اپنے علاقے کا روایتی لباس پہن رکھا تھا ، جوڑے گھیر کی سفید ، اجلی اجلی شلوار قمیض ، اوپر سے ایک قیمتی اجرک اوڑھ رکھی تھی ، سر پر سرخ اور سیاہ رنگ کی شیشوں کی باریک کام والی قیمتی ٹوپی سجا رکھی تھی ، وہ درمیانہ قد اور دہرے جسم کا مالک تھا ، بڑی بڑی مونچھوں اور بھری بھری داڑھی نے اس کی شخصیت کو بارعب بنا رکھا تھا ، چہرے کے نقوش اور سرخ و سپید رنگت کی وجہ سے اسے خوب رو بھی کہا جاسکتا تھا ، بڑی بڑی روشن سیاہ آنکھیں اس کی شخصیت میں چار چاند لگا رہی تھیں ۔ اس کی عمر چالیس بیالیس کے درمیان ہو گی مگر وہ صحت مند ہونے اور رکھ رکھاؤ ، کے باعث اپنی عمر سے کم نظر آرہا تھا ۔

حجرے میں داخل ہونے کے بعد اس نے کسی سردار ہی کے انداز میں مجھے دیکھا لیکن پھر فوراً ہی بڑے ادب سے سلام کرکے جوتے اتارے اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا میرے قریب آیا ۔

میرے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا پھر التی پالتی مار کر سامنے بیٹھ گیا ۔ میری نظریں بدستور اس کے سراپا کا احاطہ کر رہی تھیں ۔

تین روز قبل اس کا ایک آدمی مجھے ساتھ لے جانے کی خاطر آیا تھا ، وہ شاید درویشوں کے مزاج اور اطوار سے ناواقف ، اس لئے اس میں اکڑ پن تھا ، حجرے میں آنے کے بعد اس نے تحکمانہ انداز میں یہی کہا تھا ، ” میاں سائیں ۔۔۔ آپ کو  سردار نے یاد کیا ہے ۔ میں سواری لایا ہوں ، کل صبح آپ کو میرے ساتھ چلنا ہو گا ، “

اس کے عقب میں سکندر علی خان اپنی بے بسی کا اظہار کر رہا تھا ، غالباً وہ اس مسلح

شخص سے خائف تھا ۔ اس کے چہرے پر بائیں جانب گہرے زخم کا ایک نشان بھی اس بات کی غمازی کررہا تھا کہ وہ صرف اپنے سردار کا علم ماننے کا عادی ہے خواہ اس کے لئے سینکڑوں زخم کیوں نہ برداشت کرنے پڑیں ۔

”تمھارے سردار کا نام کیا ہے ؟ “

” قلندر خان کھوسہ۔۔۔۔۔“ وہ اپنی مونچھوں پر تاؤ دے کر بولا ۔

” مجھے کس لئے یاد کیا ہے ؟ “ میں نے سنجیدگی سے دریافت کیا ۔

” اس کا پتہ آپ کو ادھر ہی چل کر پڑے گا ، ہم کو صرف یہی حکم ملا ہے کہ آپ کو

ساتھ لے آؤں ۔“اس کا لہجہ بدستور سپاٹ تھ ۔

” میں صرف بہت ہی خاص خاص مواقع پر کہیں جاتا ہوں ورنہ ضرورت مند یہیں آجاتے ہیں۔ “

میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔” تم اپنے سردار کو لے آؤ ، ضرورت محسوس ہوئ تو میں اس کے ساتھ ۔۔۔۔۔“

” میاں سائیں ! “ اس کے لہجے میں تلخی پیدا ہو گئ ۔ ” ہم سردار کی جوتیوں کی خاک ہیں ۔ اس کا حکم ماننے کی خاطر ہم اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے “ ۔

” لیکن ۔۔۔۔۔“

” سردار کوئ انکار نہیں سنتا ۔ “ اس نے دوبارہ میرا جملہ کاٹا تو میں سنبھل کر بیٹھ گیا ۔

” کیا تم مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے چلو گے ؟ “ میں نے اسے قدرے بدلی ہوئ نگاہوں سے دیکھا ۔

” میاں سائیں ۔“ اس نے جھلاہٹ میں ہاتھ جوڑ کر کہا ۔ ” آپ ہم کو مجبور نہ کرو ۔ “

سکندر علی دم بخود کھڑا تھا ۔ نو وراد کے تیور بتارہے تھے کہ اس نے جو ارادہ کر لیا ہے اس سے پیچھے ہٹنے کی کوشش نہیں کرے گا ، یہ پہلا اتفاق تھا جب مجھے کسی ایسی ناگفتہ بہ صورت حال سے دور چار ہونا پرا تھا ، میرے اندر ایک ابال ساآیا مگر میں نے خود کو سنبھال لیا ، اللہ کی مشیت پر قانع سب کچھ اس پر چھوڑ دیتے ہیں ۔

یہ نکتہ ذہن میں ابھرتے ہی میں نے اپنے چٹختے ہوئے اعصاب کو قابو کیا اور صبر و تحمل سے بولا ۔”میرے عزیز ! گستاخی کے مرتکب ہورہے ہو ، کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ میں تمہارے سردار سے تمہارے نازیبا گفتگو اور بے ادبی کی شکایت کروں ؟ “

میرے جملے کا خاطر خواہ اثر ہوا ، وہ تذبذب کی کیفیت سے دو چار نظر آنے لگا ، ایک لمحے کی خاموشی کے بعد بولا ۔” ٹھیک ہے میاں سائیں ! میں خالی ہاتھ لوٹ جاتا ہوں پر ایک بات کا خیال رکھنا ۔ سردار کو تمہارا انکار پسند نہیں آئے گا ۔ “

وہ خلاف توقع تلملا کر حجرے سے باہر نکل گیا تھا اور تین روز بعد خود قلندر خان کھوسو میرے روبرو موجود تھا ، چند لمحے ہم ایک دوسرے کو نگاہوں نگاہوں میں ٹٹولتے رہے پھر گفتگو کی ابتداء دوسری جانب سے ہوئ ۔

” پیر سائیں۔۔۔۔۔“ ہاتھ جوڑ کر سنجیدگی سے کہا ۔ ”سب سے پہلے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں “

” کس بات کی ؟ “

” میرے آدمی نے جو آپ کے ساتھ بے ادبی کی تھی ، میں نے اسے خوب ڈانٹا پھٹکارا ہے ۔۔۔۔“

” بُرا کیا۔۔۔۔۔“ میں نے کہا ۔ ”غلطی اس غریب کی نہیں تھی ، وہ شاید صرف حکم بجا لانے کا عادی ہے ۔“

” بجا فرمایا پیر سائیں ! “ اس نے ادب سے کہا ۔

پہلی تشخیص

” میں تمہارے کس کام آسکتا ہوں ؟ “ میں نے اصل مقصد کی جانب آتے ہوئے دریافت کیا ۔
” میں ایک مصیبت میں گرفتار ہوں پیر سائیں۔۔۔۔۔“ وہ تھورے توقف سے بولا ۔ ” چار سال سے کسی کم ذات نے مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ “

قلندر خان کی مشکلات


” پریشانی کیا ہے ؟ “ میں نے اس کے چہرے پر نظر جمائے سوال کیا ۔
” میں شادی شدہ ہوں ، “ قلندر خان نے کہنا شروع کیا ۔ “ چار سال سے پہلے میرے بچے کی خوشی ہوئ تھی لیکن سال پورا ہونے سے پہلے پہلے وہ خدا کو پیارا ہو گیا ۔ مرنا جینا مقدر کی بات ہے ، اوپر والا جب چاہے اپنی امانت واپس لے سکتا ہے اس لئے میں نے بھی صبر و شکر کر لیا لیکن چار سال کے عرصے میں میرے تین بچے فوت ہو چکے ہیں ، وہ ایک سال کی مدت پوری نہیں کر سکتے ۔ “
”چار سال میں تین بچے ! میں نے حیرت کا اظہار کیا ۔
” میری دو بیویاں ہیں پیر سائیں ! “ وہ پہلو بدل کر بولا ۔ ” لوگوں کا خیال ہے کہ میرے کسی دشمن نے میرے خلاف کوئ کالا جادو کروایا ہے ۔“

روحانی مدد کی تلاش

” کیا تم اس ضمن میں کسی بزرگ سے مل چکے ہو ؟ ” میں نے اپنی معلومات کی خاطر دریافت کیا ۔
” جی ہاں۔۔۔۔۔“ وہ کسمسا کر بولا ” دو تین جگہ قسمت آزما چکا ہوں لیکن کوئ فائدہ نہیں ہوا ۔ “
کیا بچوں کی موت کسی خاص عمر تک پہنچنے کے بعد واقع ہوئ ہے ؟ “

” جی ہاں۔۔۔۔۔“ اس نے سوچ کر جواب دیا ، ” دس اور گیارہ مہینے کے اندر اندر وہ تینوں فوت ہو گئے تھے ۔ “

” کیا تمہیں کسی پر شبہ ہے ؟ “ میں نے پوچھا ۔

” جی نہیں ؟ لیکن جہاں ہزاروں دوست ہوتے ہیں ، ممکن ہے کسی دشمن نے کسی وجہ سے مجھے پریشان کر رکھا ہو ؟ “

” کیا اس دشمنی کی وجہ تمہارے علم میں نہیں ہے ؟ “

” جی نہیں “ ۔

” تم نے جن بزرگں اور پیروں سے رابطہ کیا تھا ان کا کہنا کیا تھا ؟ “
” گستاخی معاف پیر سائیں ! “ اس نے دوبارہ ہاتھ باندھ کر کہا ” میں نے جن لوگوں کی چوکھٹ پر حاضری دی تھی ان میں سے صرف ایک ہی سچا معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ کسی نے مجھے کالے جادو سے باندھ دیا ہے ، اس غریب نے میری خاطر بڑی کوشش بھی کی تھی لیکن پھر بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکا “۔
” ناکامی کا سبب کیا تھا ؟ “
” غیب کا حال اوپر والا جانتا ہے لیکن اس نے کہا تھا کہ جو شخص اس عمل کا توڑ کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود بھی مر جائے گا ؟ “
میں نے فوری طور پر کوئ جواب نہیں دیا ۔ قلندر خان کھوسو نے جس بزرگ یا پیر کے حوالے سے جو بات کہی تھی وہ سچ بھی ہوسکتی تھی ۔
میں اپنے پڑھنے والوں کو کئ مواقع پر بتا چکا ہوں کہ جادو درحقیقت اثرات رکھتا ہے لیکن اس کو کرنے والا
کافر ہے ، جادو ٹونے کے بھی ہزاروں طریقے ہیں لیکن زیادہ تر نجس قسم کے غیر مسلم اور بھنگی قسم کے لوگ کرتے ہیں ۔ اس عمل کے ذریعے دشمن کو اس طرح باندھ دیا جاتا ہے کہ وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے یا کسی عذاب میں مرتے دم تک مبتلاء رہتا ہے اور ایسے عمل کا توڑ کرنے والے کی ایک معمولی سی غلطی خود اس کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے ، دوسری شکل میں وہ گندہ عمل اسی شخص کی سمت واپس لوٹ جاتا ہے جس نے اسے کیا ہو ، بہر حال دونوں صورتوں میں کسی ایک کی جان جاتی تقریباً یقینی ہوتی ہے ۔

درویش کا مشورہ

بہر حال ، قلندر خان کی بات سننے کے بعد میں نے آنکھیں بند کر لیں ، کچھ دیر مراقبے کی حالت سے دو چار ہوا ، پھر میں نے دریافت کیا ، ” قلندر خان۔۔۔۔“ تم جس مکان میں رہتے ہو وہاں کوئ پرانا درخت بھی موجود ہے ؟ “۔
” جی پیر سائیں ! “ وہ تیزی سے بولا ۔ ” برگد کا درخت ہے “۔
” صحن کچا ہے یا پکا ؟ “
” کچا ہے پیر سائیں ! “ وہ مجھے پر امید نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔
” برگد کے درخت کے علاوہ میں نے دیواروں کے ساتھ پھلواری لگا رکھی ہے لیکن آپ حکم دیں تو صحن پکا کرادوں “۔
” میں ۔۔۔۔ فی الحال اس کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔“
” آپ سے ایک بات اور عرض کرنی ہے “ اس نے پریشان کن لہجے میں کہا ۔ ” میری بڑی بیوی کا پاؤں پھر بھاری ہے ۔ لیکن وہ اپنے ایک بچے کی موت کی وجہ سے بہت پریشان ہے ۔ نہ کچھ کھاتی ہے نہ پیتی ہے ۔ ہر وقت غم سے دو چار رہتی ہے ۔ آپ کوئ ایسا تعویذ دے دیں کہ اس کی تسلی ہو جائے ۔“
” اس سے پہلے میں تمہارے ساتھ چل کر تمہارے مکان دیکھنا پسند کروں گا ۔“ میں نے مراقبے کے دوران نظر آنے والی علامتوں کے پیش نظر جواب دیا ۔
اس کا چہرہ کھل گیا ۔ اس نے کہا ۔ ” یہ آپ کا بڑا کرم ہو گا پیر سائیں ۔ اب آپ ہی میری مدد کریں ۔“
” بری بات ہے میرے عزیز ۔“ میں نے اسے ٹوکا ” مدد کرنا صرف اس کے اختیار کی بات ہے ۔ بندہ خاکی تو صرف سجدہ ریز ہو کر اس کے حضور میں گڑا گڑا سکتا ہے ، دعا کا قبول کرنا یا نہ کرنا اس کی مرضی پر منحصر ہے لیکن اس بات پر یقین ہے ، اس کی مصلحتوں کو اس کے سوا کوئ نہیں جان سکتا اور یہ بھی صداقت ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں انسان کی
کوئ نہ کوئ بھلائ ضرور ہوتی ہے جسے انسان سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے ۔۔۔۔۔“
” پھر۔۔۔۔۔آپ کب تشریف لے چلیں گے ؟ ” اس نے بڑے ادب سے پوچھا ۔
” تمھارا قیام کہاں ہے؟ “
” یہیں حیدر آباد میں ہوں ، آپ جب حکم دیں حاضر ہو جاؤں ۔“
” دو روز بعد مجھ سے ملنا ، اس عرصے میں ، میں کچھ اور بھی غور کرنا چاہتا ہوں ۔“
” پیر سائیں۔۔۔۔۔میری مشکل آسان تو ہو جائے گی ؟ “
” مشکل کشا اس کی ذات ہے ، میں حتیٰ الامکان کوشش کروں گا ۔“
”میں ہر خدمت کے لئے تیار ہوں ، آپ بس کسی طرح مجھے اس عذاب سے نجات دلادیں۔“
” ایک بات پوچھوں قلندر خان ؟ “
” حک پیر سائیں۔“ وہ بالکل تابعدار بن گیا ۔
” کیا تمہارے تینوں بچوں کی ولادت ایک ہی مکان میں ہوئ تھی ؟ “
” جی ہاں۔۔۔۔“ وہ میری شکل کو گھورتے ہوئے بولا ۔ ” ولادت اور موت کسی ایک ہی دن واقع ہوئ تھی ؟ “
” جی ہاں۔۔۔۔۔“ وہ میری شکل کو گھورتے ہوئے بولا ۔ ” ولادت اور موت دونوں میری حویلی کے اندر ہی ہوئ تھی لیکن۔۔۔۔۔“
” قبل از وقت کوئ نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش نہ کرو ۔ اللہ بہتر ہی کرے گا ۔“ میں نے کہا ، پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد پوچھا ۔” ایک بات سوچ کر بتاؤ ، کیا تینوں بچوں کی موت کسی ایک ہی دن واقع ہوئ تھی؟ “
” میں نے اس بات پر غور نہیں کیا ۔“
” کیا بچوں کی ولادت سے پہلے بھی کسی نے تمہیں کوئ تعویذ دیا تھا ۔“
” دوسرے بچے کی موت کے بعد علاقے کی بڑی مسجد کے پیش امام نے ایک تعویذ لکھ کر دیا تھا ۔“ قلندر خان نے تیزی سے جواب دیا ۔“ میں نے وہ تعویذ شاہ صاحب کے کہنے پر بیوی کی کمر سے باندھ دیا تھا ، ولادت تک وہ تعویذ محفوظ رہا ، اس کے بعد میں نے اسے شاہ صاحب ہی کے حکم پر چاندی میں بند کرا کے بیوی کے گلے میں ڈال دیا تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ شاہ صاحب کی دعا کی برکت سے سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن دس مہینے بعد ایک صبح بیدار ہوئے تو بچہ مردہ پڑا ملا اور شاہ صاحب کا تعویذ غائب تھا ۔ “
” اور کوئ خاص بات ؟ “
” میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ؟ “
” کیا بچے کی موت کے بعد اس کی ماں کا ذہنی توازن قائم رہا تھا ؟ “
” کیسے رہ سکتا تھا پیر سائیں ۔“ قلندر خان نے سرد آہ بھر کر جواب دیا ۔
” جس کی گود دو بار اجڑ چکی ہے ۔ اس کا ذہنی توازن کیسے برقرار رہ سکتا ہے ! دو چار مہینوں تک وہ مچھلی کی طرح تڑپتی رہی پھر رو پیٹ کر خاموش ہو گئ ، اب میری بڑی بیوی کو بھی یہی غم کھائے جارہا ہے کہ کہیں اس کی گود بھی دو بارہ نہ اجڑ جائے ، نہ کھاتی ہے نہ پیتی ہے ، سوکھ کر کانٹا ہو گئ ہے ۔ “
” اس پر بھروسہ رکھو ، وہ بہتری کرے گا ۔“
” پیر سائیں۔۔۔۔۔ “ قلندر خان نے مجھے کریدنے کی خاطر پوچھا ۔ ” آپ نے حویلی کے صحن کے درخت والی بات کیوں پوچھی تھی ؟ “
” ابھی یہ باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آئیں گی ۔ “
میں نے سمجھا بجھا کر اسے دو دن بعد آنے کی تاکید اور دوسرے عقیدت مندوں کے ساتھ روز مرہ کے معمول میں مشغول ہو گا ۔

استخارے کے نتائج

جس دن قلندر خام کھوسو میرے پاس آیا تھا وہ بدھ تھا ، جمعرات اور جمعے والی درمیانی شب کو میں نے حسب عادت قلندر خان کے حالات کے سلسلے میں استخارہ لیا ۔ استخارے کے دوران پرانا گھنا درخت نظر آیا جس پر بے شمار گدھ منڈلارہے تھے ۔ بہر حال استخارے کے دوران مجھے ایک اشارہ اور بھی ملا جو میری سمجھ میں نہیں آسکا ، وہ روئ کے گالوں کی طرح سفید بالوں کا گچھا تھا جو کسی عمارت کے اوپر پوری شدت سے منڈلارہا تھا ، گدھ عام طور پر نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن سفید بالوں کا الجھا ہوا گچھا میرے لئے ناقابل فہم ہی تھا ۔ میں نے دوسرے روز بھی استخارہ لیا ۔ اس روز بھی وہی چیزیں نظر آئیں جو پہلے آچکی تھیں اور میں کسی آخری نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ۔
سنیچر کی صبح قلندر خان مجھے لینے آگیا ۔ میں حجرے سے رخصت ہونے سے قبل وہاں
ایک تختی آویزاں کرادی تھی کہ دو روز کے لئے باہر جارہا ہوں۔۔۔۔۔۔ سکندر علی کو میں نے خاص طور اپنے ہمراہ لے لیا تھا ، اس لئے کہ وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا ۔
قلندر خان کی حویلی خاصی بڑی تھی ، میں شام کے جھٹ پٹے کے وقت وہاں پہنچا تھا ، اس لئے میں نے آرام کیا ۔ دوسری صبح ناشتے کے بعد میں نے قلندر خان کے ساتھ حویلی کے اندر جاکر اس کے صحن کو دیکھا ۔ صحن بھی خاصا بڑا تھا ، اس کے مشرقی گوشے میں برگد کا تقریباً پچاس ساٹھ سال پرانا ایک درخت موجود تھا ، درخت کے ساتھ ہی ایک کنواں تھا جو بند کر دیا گیا ۔
میں کچھ دیر کسی سراغ رساں کی طرح ماحول کا جائزہ لیتا رہا پھر میں نے قلندر خان سے دریافت کیا ۔
” اس کنویں کو کب بند کیا گیا ؟ “ ” بہت پرانی بات ہے پیر سائیں ۔“ وہ بولا ۔ ” اس کا پانی ختم ہو گیا تھا اور ہمیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی اس لئے بند کرادیا گیا تھا ۔“

قلندر خان کی بیوی کی حالت

” کیا تمہاری صرف دو بیویاں ہیں ؟ “ میں نے دبی زبان میں سوال کیا ۔
” جی ہاں “اس نے کچھ توقف سے جواب دیا ۔ فی الحال میرے نکاح میں دو ہی ہیں ۔“
” فی الحال سے تمہاری مراد کیا ہے ؟ “میں نے وضاحت چاہی ، مجھے علم تھا کہ وڈیرے اور سردار قسم کے مقامی لوگ ایک ایک وقت میں کئ کئ عورتیں رکھتے تھے جن میں سے کچھ کے ساتھ باقاعدہ نکاح ہوتا تھا اور کچھ کو بطور یرغمال مختلف مد میں تحویل میں لے لیا جاتا تھا ۔
” میں اس سے پہلے بھی تین شادیاں کر چکا ہوں “ قلندر خان نے صاف گوئ کا مظاہرہ کیا ۔
” ان تینوں کا کیا حال بنا ؟ “
” ایک مر گئ تھی اور دو کو میں نے طلاق دے دی تھی ۔“
” ان کے علاوہ کیا کچھ اور عورتیں بھی تمہارے تصرف میں رہ چکی ہیں ؟ “ میں نے رازدارانہ انداز میں پوچھا کی سکندر علی نہ سن سکے ۔
قلندر خان میرے سوال پر کسمسا کر رہ گیا ۔ اس کی خاموشی نیم رضا مندی کے مترادف تھی ۔ وہ خاموش رہا تو میں نے بھی اصرار نہیں کیا ۔ بات کا رخ بدل کر بولا ۔ ” کیا میں تمہاری بڑی بیگم سے کچھ سوال کرسکتا ہوں ؟ “
” حرج تو کوئ نہیں پیر سائیں لیکن ہم اپنی عورتوں کو کسی اور سے بات چیت کی اجازت
نہیں دیتے ۔“ اس نے کسی قدر تذبذب سے کہا ۔
” اچھی بات ہے ۔“ میں نے اس کا مفہوم سمجھتے ہوئے بات بنادی ۔ ” عورت کا کسی نامحرم کے سامنے آنا یا اس سے بات کرنا مناسب نہیں ہے ۔“
آپ اس غریب کے لئے کوئ تعویذ لکھ دیں تو آپ کا احسان کبھی فراموش نہیں کروں گا ۔“
قلندر خان نے عاجزی سے کہا ۔
دو روز اور رک جاؤ میرے عزیز۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ میں اس عرصے میں خدا کی مرضی سے کوئ اور صورت تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاؤں ۔ میں نے اسے تسلی دی ۔
دو پہر کے کھانے کے بعد میں قیلولہ کرنے کی خاطر لیٹا تو سکندر علی نے کہا میرے پیر دبانے شروع کر دیئے ۔ میں قلندر خان کے بارے غور کر رہا تھا ، سفید بالوں کا گچھا اس وقت بھی میرے ذہن میں الجھ رہا تھا جب سکندر علی نے دبی آواز میں کہا ۔ ” میاں جی “ آپ نے کیا اندازہ لگایا ہے ، قلندر خان کے بارے میں ؟ “
” کیا مطلب ؟ “
” میرا خیال ہے کہ قلندر خان یہ سب کچھ دنیا دکھاوے کو کر رہا ہے ۔“ سکندر علی جواب دیا ۔
” تم نے کیسے سوچ لیا ؟ “ میں نے اسے وضاحت طلب نظروں سے گھورا ۔
” مجھے اس کے ایک پرانے ملازم نے بتایا ہے ۔“
” کیا ؟ “
” تینوں مرنی والی بچیاں تھیں ۔“ سکندر علی ادھر ادھر دیکھ کر کہا ۔
” اس کا خیال ہے کہ خود قلندر خان نے ان تینوں لڑکیوں کو پروان چڑھنے سے بیشتر ہی ختم کرادیا اور اب لوگوں کو وہم میں مبتلاء کرنے کی خاطر الٹے سیدھے تماشے کررہا ہے ۔“
” لیکن لڑکیوں کی موت سے اسے کیا حاصل ہو سکتا ہے ؟ “
” یہ تو وہی بتا سکے گا لیکن کہنے والے نے بتایا ہے کہ قلندر خان بچیوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اس سے پہلے بھی اس نے جو تین بیویوں کو نمٹایا ہے ، ان کے ساتھ بھی قدرت نے یہی کیا تھا۔ میرا مطلب ہے کہ جن دو بیویوں کو طلاق دی اور ان کے گھر بھی بچیاں ہوئ تھیں لیکن مردہ حالت میں ۔ تیسری غریب ولادت ہونے سے بیشتر ہی اللہ کو پیاری ہوگئ تھی۔۔۔ہو سکتا ہے کہ مردہ بچیوں کی پیدائش کے اندر بھی اسی کا شیطانی ہاتھ شامل ہو ورنہ ایک ہی اتفاق پانچ بار تو نہیں سکتا ۔ سکندر علی نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا ۔“
ملازم کا کہنا ہے کہ ایک بیوی جسے طلاق دی گئ تھی ، بڑی ہی نیک اور خدا ترس تھی ، سب کا خیال رکھتی تھی ، بلا کی حسین تھی اس لئے قلندر خان اسے بہت چاہتا تھا لیکن اسے یہ بات پسند نہیں تھی کہ وہ غریب ملازموں کو منہ لگائے یا ان کے دکھ درد بانٹنے کی کوشش کرے ۔ ولادت سے ایک مہینے پیشتر ہی دونوں کے درمیان ہونے والے بچے کے سلسلے میں کھینچا تانی شروع ہو گئ تھی ، قلندر خان نے اس سے کہا تھا کہ اسے بیٹا چاہئے اور اس غریب نے یہی جواب دیا تھا کہ جو بات خدا کے اختیار میں ہے اس کے سلسلے میں وہ کیا کر سکتی ہے ۔ ملازم کا خیال ہے کہ اس کے ہاں جنم لینے والی لڑکی زندہ تھی لیکن قلندر خان نے لیڈی ڈاکٹر سے مل کر اسے بھی ٹھکانے لگوادیا ۔ پرانے زمانے یہی میں بھی یہی ہوا کرتا تھا کہ لڑکیوں کو زندی درگور کرادیا جاتا تھا۔۔۔۔۔“
” وہ جہالت کا زمانہ تھا ۔“ میں نے کہا ۔
” اب بھی جاہلوں کی تعداد پڑھے لکھے لوگوں سے زیادہ ہے اور پھر ہمارے ہاں دین سے دوری بھی ہے ۔“ سکندر علی نے مدبرانہ جواب دیا ۔
سکندر علی نے غلط نہیں کہا تھا ۔ اس کی فراہم کردہ معلومات میرے لئے قابل نظر انداز نہیں تھیں اس لئے کہ قلندر خان کے دو بچے جو حیات تھے وہ دونوں لڑکے تھے چنانچہ شام کو جب وہ مجھ سے ملنے آیا تو تین بچوں کی اموات کے سلسلے میں ذکر چھیڑ دیا ۔ وہ مجھے محتاظ انداز میں تفصیل بتاتا رہا ، میں اس کے چہرے کے تاثرات کو پڑھتا رہا ۔ بظاہر وہ غلط بیانی سے کام نہیں لے رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنی تسلی کی خاطر پوچھ ہی لیا ۔
”قلندر خان ، کیا مرنے والے بچوں کا تعلق ایک ہی جنس سے تو نہیں تھا ؟ “
وہ میرا سوال سن کر چونکا ، کچھ توقف سے بولا۔” آپ کا اندازہ درست ہے وہ ، تینوں لڑکیاں تھیں ۔“
” کیا تمہاری پہلی تین بیویوں کے یہاں بھی کوئ ولادت ہوئ تھی؟ “
” جی ہاں ۔“ وہ پہلو بدل کر بولا ۔” دو کے ہاں مردہ لڑکیاں پیدا ہوئ تھیں اور تیسری یہ حسرت لئے دنیا سے کوچ کر گئ ۔“
جو معلومات سکندر علی نے فراہم کی تھیں وہ معمولی رد و بدل کے ساتھ درست ہی ثابت ہوئیں ، اس لئے میں بھی سوچ میں پڑ گیا کہ ہو سکتا ہے کہ ان تمام حادثات میں خود
قلندر خان کھوسو ہی کا ہاتھ شامل ہو لیکن ایسا نہیں تھا ۔
وقتی طور پر مجھے خود وہم لاحق ہوا تھا وہ اسی رات تیسری بار استخارہ لینے پر دور ہو گیا ۔ اس روز مجھے جو غیبی اشارے ملے تھے اس سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ قلندر خان بچیوں کی موت کی حد تک بے قصور ہے ، اب تک جو اموات ہوئ تھیں اس میں البتہ کسی نادیدہ قوت کا دخل تھا ۔
تیسری بار استخارہ لینے پر میں نے خاص طور پر اس کنویں کو بھی دیکھا جو بند کرایا جاچکا تھا ۔ کنویں اور برگد کے درخت کے درمیان ، میں نے زمیں کو اس طرح حرکت کرتے دیکھا تھا جیسے کوئ جان دار شے اس سے باہر آنے کی جدوجہد کر رہی ہو پھر زمین کا وہ مخصوص ٹکڑا زلزلے کی کیفیت سے دو چار ہو ۔

کھدائی کا عمل

دوسرے صبح میں قلندر خان کے ساتھ جا کر پھر اس جگہ کو غور سے دیکھا جو مجھے متحرک نظر آئ تھی ۔ خاصی دیر تک میں مختلف زاویوں سے اسے بغور دکھتا رہا پھر میں نے سکندر علی کو مخاطب کیا اور زمین کے اس حصے کو کھودنے کی ہدایت کی ۔
” خیریت تو ہے پیر سائیں؟ “ قلندر خان نے اضطراب سے پوچھا ۔ ” کیا آپ نے کچھ معلوم کر لیا ہے ۔“
غیب کا حال اس کے سوا اور کوئ نہیں جانتا ۔ میں اپنی کوشش کررہا ہوں ۔“
میں قلندر خان کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھا تھا اور سکندر علی کدال سے اس حصے کی آہستہ آہستہ کھدائ کر رہا تھا جس کی نشان دہی مجھے گزشتہ رات استخارے میں کی گئ ۔ تقریباً ایک فٹ زمین کھودنے کے بعد سکندر علی گھبرا کر ایک طرف ہو گیا ۔ اس کے چہرے سے خوف جھلک رہا تھا ۔
” کیا بات ہے سکندر علی ، تم رک کیوں گئے؟ میں نے دریافت کیا ۔ ” میاں جی۔۔۔۔ ایک درخواست کروں۔۔۔۔۔؟ “ سکندر علی نے عجیب سے انداز میں کہا ۔” آپ زمین کی کھدائ کا کام کسی اور سے کرالیں ۔“
” کیوں؟ کیا تم تھک گئے ہو؟ “ میں نے کریدنے کی غرض سے کہا ۔” بات تھکنے کی نہیں ہے ۔“
” پھر اور کیا وجہ ہے ؟ ۔“
” مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے ۔“ سکندر علی نے سہمے سہمے لہجے میں جواب دیا ۔
” ہو سکتا یہ میرا وہم ہو لیکن مجھے ایسے لگا ہے جیسے کوئ مجھے اس کام سے روکنے کی
کوشش کر رہا ہے ، منع کر رہا ہے ۔“
”میں تمہارے قریب ہوں۔“ میں نے اسے دلاسا دیا ۔” خدا نے چاہا تمہیں کچھ نہیں ہو گا ۔“
”مجھے کسی بات کا ڈر نہیں ہے میاں جی ، لیکن آپ۔۔۔۔۔ سکندر علی کچھ کہتے کہتے رک گیا ۔
”میری فکر مت کرو ۔“ میں نے یقین سے جواب دیا ۔ ”خدا کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوتا ، تم کھدائ کا کام شروع کرو ۔“
قلندر خان خاموش بیٹھا تھا ، سکندر علی کی بات نے ایک لمحے کو اسے بھی پریشان کردیا تھا
لیکن پھر وہ مطمئن نظر آنے لگا ، سکندر علی نے آگے بڑھ کر کدال دوبارہ سنبھال لی اور کھدائ کا کام شروع کردیا لیکن دس منٹ بعد ہی وہ چیخ مار کر ایک طرف ہوگیا ۔ اس کے چیخنے کی وجہ وہ گاڑھا گاڑھا خون تھا جو زمین سے ابل کر باہر آرہا تھا ۔ قلندر خان نے متوحش نگاہوں سے میری طرف دیکھا لیکن میری نگاہوں کا مرکز زمین کا وہ ٹکڑا تھا جہاں سے تازہ تازہ خون ابل رہا تھا ۔
صحن کی کھدائ سے پہلے ایسی کوئ علامت نظر نہیں آتی تھی جس سے ظاہر ہوتا کہ کسی حصے کی تازہ کھدائ کرنے کے بعد اسے دوبارہ بند کیا گیا ہو لیکن تازہ تازہ خون اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ وہاں کوئ دفن تھا جسے دفنائے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا ۔
سکندر علی کے چہرے پر بدستور ہوائیاں اڑ رہی تھیں ۔ وہ ڈرپوک قسم کا آدمی نہیں تھا مگر اس وقت اس کی کیفیت قابل دید تھی ۔ اس کی نگاہیں پھٹی پھٹی تھیں جن سے خوف جھانک رہا تھا ، دور سے نظر آرہا تھا کہ اس کی دل کی دھڑکنیں بتدریج تیز سے تیز ہو رہی تھیں ۔
”یہ۔۔۔۔یہ کیا ہے پیر سائیں؟ “ قلندر خان کی گھبرائ ہوئ آواز میرے کانوں میں گونجی ۔“
” یہ خون کیسا ہے؟۔“
” کیا کبھی یہاں کسی کو دفن کیا گیا تھا تھا؟ “ میں نے قلندر خان کی جانب دیکھے بغیر سوال کیا ۔
” میرے علم میں نہیں ہے ۔“
” اس حصے کی ابھی حال میں کھدائ تو نہیں ہوئ تھی؟ “
” جی نہیں ۔ “
” یہ حویلی کب سے آباد ہے ؟ “
ہمارے پرکھوں کے زمانے سے لیکن۔۔۔۔۔؟
” صحن کا یہ حصہ زیادہ استعمال میں تو نہیں رہتا ؟ “
” اب نہیں رہتا ۔“ قلندر خان نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔ ” ایک مہینے پہلے یہاں برگد کی شاخ سے ایک جھولا پڑا تھا “ ہمارے گھر کی عورتیں باہر نہیں نکلتیں ، گھر کے اندر ہی اپنی تفریح کا سامان پیدا کر لیتی ہیں ۔“
” جھولا ہٹوانے کی وجہ کیا تھی ؟ “ میں نے خون پر نظر جمائے پوچھا ۔ ” میری بڑی بیوی اس سے گرتے گرتے بچی تھی ، اس لئے میں نے اسے ہٹوا دیا ۔“
زمین سے ابلنے والا خون بند ہونے لگا تھا ، میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ زمین کے اس ٹکڑے سے قلندر خان کی پریشانی کا کوئ نہ کوئ بہت گہرا تعلق ضرور ہے ۔ بعض جان لیوا عمل میں خون کا پایا جانا میرے لئے کوئ تعجب خیز بات نہیں تھی ، ہندو بھنگی اسے جیو دھاری جنتر منتر کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ایسے عمل کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ سال میں ایک نہ ایک جان ضرور لیتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ پڑھنے والوں کے ذہن میں کوئ ایسی جھیل ، کنواں یا کوئ اور دوسرا مقام ہو جہاں ہر سال ایک مخصوص مدت میں کسی نہ کسی کی موت واقع ہوتی ہو ۔ ( ہندوستان میں ایسی بے شمار جگہیں پائ جاتی ہیں ) بہر حال جب خون مکمل طور پر جم گیا تو میں نے سکندر علی کی طرف دیکھا ۔
” کیا تم اس جگہ کی تھوڑی کھدائ اور کر سکتے ہو ؟ “
”میاں جی۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔“
” خدا پر بھروسہ رکھو سکندر علی ، تمہیں کچھ نہیں ہو گا ۔“ میں نے اسے دلاسا دیا ۔
” آپ بجا فرمارہے ہیں لیکن جان بوجھ کر۔۔۔۔۔“
” ٹھیک۔۔۔۔ ہے “ میں اس کا جملہ کاٹ کر اٹھتے ہوئے بولا ۔” کھدائ کا بقیہ کام میں خود انجام دے لوں گا ۔“
” نہیں میاں جی نہیں۔۔۔۔“ سکندر علی جو بری طرح سہما ہوا تھا ، مجھے اٹھتا دیکھ کر تیزی سے کھڑا ہو گیا اور کدال اٹھا کر بولا ۔“ آپ پر سے ہزاروں سکندر علی قربان میں آپ کو کھدائ نہیں کرنے دوں گا ۔“
قلندر خان گنگ بیٹھا سب کچھ دیکھ رہا تھا ، سکندر علی نے یا علی مدد کا نعرہ لگا کر دوبارہ کھدائ شروع کر دی ۔ اس کے اندر وہ پہلے جیسی تیزی نہیں تھی ، شاید تازہ خون ابھی تک اس کے اعصاب پر طاری تھا۔۔۔۔۔میں نے کچھ سوچ کر اپنا ایک آزمودہ عمل ورد کیا اور چاروں سمت حصار کھینچ دیا۔ ہماری نظریں زمین کے اس حصے پر مرموز تھیں۔ کوئ پندرہ منٹ بعد پھر سکندر علی چھلانگ لگا کر ایک طرف ہو گیا ، وہ بے حد خوف زدہ نظر آرہا تھا ۔ پھر میں نے کرسی سے اٹھ کر دیکھا تو میں بھی ہونٹ چبانے لگا ۔ سفید بالوں کا ویسا ہی گچھا زمین سے جھانک رہا تھا جیسا میں نے استخارے میں دیکھا تھا ۔ حیرت اس بات کی تھی کہ بال روئ کے گالوں کی طرح سفید اور بے داغ تھے ۔ اس پر خون کا دھبہ تک نہ تھا ۔ میرے ساتھ ہی قلندر خان بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔ اب اس کی حالت بھی قدرے دگرگوں نظر آرہی تھی ۔
”پیر سائیں“ وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں مخاطب ہوا ۔ ” یہ بال۔۔۔۔اور خون۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟ “
”فی الحال میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا اتنا ضرور سمجھ رہا ہوں کہ یہ دونوں چیزیں ہی تمام پریشانی کی وجہ ہیں ۔“
”مسجد کے شاہ صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ کسی بد ذات نے میری حویلی کی خوشیوں کو باندھ دیا ہے ۔“ وہ ہونٹ چباتے ہوئے پریشان کن انداز میں بولا۔ ”پیر سائیں“ کیا آپ اس گندےعمل کو توڑ نہیں سکتے؟ “
”میں کوشش کروں گا ۔“
”میرا دل گواہی دے رہا ہے پیر سائیں کہ آپ میری مدد کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں
گے ۔“
” کامیابی یا ناکامی اس کے اختیار میں ہے لیکن میں تمہارے حق میں دعا ضرور کروں گا ۔“
میں نے جواب دیا ، پھر زمین کے اس حصے کو دوبارہ برابر کرا دیا ۔
سکندر علی بدستور گم صم نظر آرہا تھا ۔ خون اور اس کے بعد سفید بالوں کے الجھے ہوئے بے داغ گچھے نے یقیناً اس کے اعصاب کو شل کر دیا ہو گا ۔

قلندر خان کا اعتراف

حیدر آباد پہنچ کر میں نے پیش آنے والی باتوں کے بارے میں از سر نو غور کیا پھر قلندر خان کو دوبارہ ٹٹولنے کی خاطر پوچھا ۔” قلندر خان ، تمہیں میری کچھ باتوں کا جواب دینا ہو گا۔“
” میں حاضر ہوں پیر سائیں۔“ اس نے تابع داری کا مظاہرہ کیا ۔
”کیا تمہیں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے زیادہ پسند ہیں ؟ “
بندے کی کیا پسند سائیں“ ! وہ تھوڑے سوچ بچار کے بعد بولا ۔” مالک کی دین کے آگے سر تو جھکانا ہی پڑتا ہے “۔
” میں تمہیں دو ایک تعویذ لکھ کر دوں گا لیکن اس سے پہلے یہ بتادوں کہ اگر درمیان میں کوئ کڑی نہیں کھلی تو پھر عمل نقصان دہ بھی سکتا ہے۔“
”میں سمجھا نہیں“۔ اس نے مجھے وضاحت طلب نظروں سے دیکھا ۔
” تمہارے دل میں اگر کوئ بات ہو تو ابھی بتادو بعد میں بات میرے اختیار سے نکل بھی سکتی ہے “۔ میں نے سکندر علی کی معلومات کے پیش نظر صاف گوئ کا مظاہرہ کیا ۔
”ایک بار کوئ عمل کرنے کے بعد قدم پیچھے ہٹانا اکثر بے حد دشوار ثابت ہاتا ہے“۔
”آپ اللہ کا نام لے کر بسم اللہ کریں پیر سائیں، آگے جو اسے منظور ہو“۔
قلندر خان کا جواب کچھ مبہم سا تھا لیکن میں اپنا فرض پورا کر چکا تھا ، اس لئے اس کی ایما پر میں نے اسے دو تعویذ دیئے ، ایک بیوی کی بازو پر باندھنے کی خاطر جو امید سے تھی اور دوسرے کے بارے میں ، میں نے تاکید کی تھی کہ اسے عین اسی مقام پر ایک گہرا گہڑا کھود کر دفن کر دیا جائے جہاں سے خون ابلا تھا اور سفید بالوں کا الجھا ہوا گچھا بر آمد ہوا تھا ، قلندر خان نے تعویذ لے کر جاتے وقت کچھ رقم کی پیش کش کی جسے میں نے رد کر دیا اور کہا کہ اگر وہ مناسب سمجھے تو اس رقم سے کچھ مٹھائ خرید کر اور شیرینی پکوا کر غریب غربا میں تقسیم کرا دے اور خاص طور مٹھائ معصوم بچوں میں تقسیم کرا دے ، قلندر خاں مجھ سے وعدہ کرکے رخصت ہو گیا ۔
اگلے دن قلندر خان دوبارہ میرے پاس آیا ۔ وہ بے حد بو کھلایا ہوا تھا ، میں نے وجہ دریافت کی تو ہونٹ کانٹتے ہوئے بولا ۔”بیوی والا تعویذ اس نے اس کے گلے میں ڈال دیا ہے لیکن دوسرا تعویذ میری جان کے لئے عذاب بن گیا ہے ۔“
”میں اسے اسی جگہ گڑھا کھود کر دفن کرانا چاہتا تھا جہاں آپ نے حکم دیا تھا جو شخص گڑھا کھود رہا تھا وہ پاگل ہو گیا ۔ میں اس گدو کے پاگل خانے میں داخل کراکے آرہا ہوں ، نہ جانے وہ کیا الٹی سیدھی باتیں کررہا ہے ۔ میں نے اس کے گھر والوں کا منہ بند کرنے کی خاطر روپے پیسے کے علاوہ اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کیا ہے ۔ ان کی زبان تو بند ہو گئ ، لیکن پاگل ہونے والا الٹی سیدھی بکواس کئے جارہا ہے ۔“
”تعویذ کا کیا بنا ؟ میں نے حیرت سے پوچھا ۔“
”وہ اسی شخص کے پاس تھا لیکن اس کے پاگل ہونے کے بعد وہ بھی کہیں غائب ہو گیا ۔ قلندر خان پہلو بدل کر بولا میں نے تمام جگہ چھان ماری ، اس شخص کی جامہ تلاشی بھی خود اپنے ہاتھوں سے لی لیکن تعویذ کا کوئ اتاپتا نہیں چلا ۔“
”اس تعویذ کا گم ہوجانا اچھی علامت نہیں ہے ۔“ میں نے پر خیال انداز میں کہا ۔ لیکن تم فکر مت کرو ۔
”پیر سائیں ! مجھے تو یہ کوئ لمبا چکر ہی معلوم ہوتا ہے ۔“ اس نے سہمے ہوئے انداز میں کہا ۔ ”کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ میں وہ حویلی ہی خالی کر دوں ؟ “
” ابھی اس کی نوبت نہیں آئ ؟ “
”اس بندے کا کیا بنے گا جو پاگل ہو گیا ہے ؟ “
” پاگل ہونے کے بعد وہ کیا کچھ کہہ رہا ہے ؟ “ میں نے سنجیدگی سے دریافت کیا ۔
” دیوانگی کی باتیں کر رہا ہے ، کبھی خون خون کہہ کر چلانے لگتا ہے ۔ کبھی چیخ چیخ کر کہتا ہے کہ مجھے نہ مارو میں بے قصور ہوں کبھی قاتل قاتل کی رٹ شروع کر دیتا ہے ۔“
” تم کل صبح میرے پاس آنا۔۔۔۔۔ میں کچھ کرتا ہوں ۔“
قلندر خان کے جانے کے بعد میں سوچ میں پڑ گیا ۔ میں نے جو تعویذ اسے دفن کرنے کی خاطر دیا تھا وہ میرا کئ بار کا آزمودہ تھا لیکن اس کا غائب ہوجانا اور دفن کرنے والے کا ذہنی توازن بگڑ جانا میرے لئے انتہائ حیران کن تھا ۔ میں نے وہ تعویذ اس اثر کو ختم کرنے کو دیا تھا جو حویلی کے صحن میں دفن تھا ۔ خون کا ابلنا اس بات کی ترجمانی کر چکا تھا کہ جس نے بھی وہ عمل کیا ہے وہ بہت زیادہ ہلاکت خیز ہے اور میرے خیال کے مطابق وہ پیدا ہونے والے بچوں کی موت کا سبب تھا ۔ البتہ سفید بالوں کے گچھے والی بات میری سمجھ میں نہیں آسکی تھی ۔
تین بار۔۔۔۔۔ استخارے لینے کے بعد ایک اس عمل کو بار بار دہرانا مناسب نہیں تھا ، چنانچہ اس رات میں نے ایک اور آزمودہ نفل پڑھے اور سو گیا ۔ گہری نیند میں مجھے جو کچھ نظر آیا وہ حرف بحرف نقل کر رہا ہوں ۔
وہ ایک مختصر مگر بے حد خوبصورت گڑیا گھر تھا جس کے اندر سے کثیف دھواں نکل رہا تھا ۔ میں دبے قدموں اندر داخل ہوا تو وہاں ہر سمت ویرانی اور خاموشی مسلط تھی ۔
در و دیوار اداس اور غمگین نظر آرہے تھے ۔ ایک سمت خالی پالنا ہلکورے لے رہا تھا ۔ پورے ماحول میں کافور کی خوشبو پھیلی ہوئ تھی ۔ میں ایک ایک شے کو بغور دیکھ رہا تھا کہ کسی کے سسک سسک کر رونے کی آواز آہستہ اہستہ میرے قریب آکر گردش کرنے لگی ۔
”کون ہو تم اور تمہارے رونے کا سبب کیا ہے ؟ “ میں نے سسکتی ہوئ مدہم آواز کو مخاطب کیا لیکن کوئ جواب نہیں ملا ۔ رونے کی آواز اب آہستہ آہستہ سسکیوں میں تبدیل ہو رہی تھی ۔
”میں تمہارا غم خوار ہوں ۔ میں نے اسے دوبارہ مخاطب کیا ، مکھے اپنے رونے کا سبب بتاؤ ، ہو سکتا ہے کہ تمہارے کسی کام آسکوں ؟ “
ہچکیوں اور سسکیوں کی آواز یک لخت مدہم پڑ گئ ، پھر تیز و تند ہواؤں کا ایک جھکڑ ایا اور گڑیا گھر کو اڑا لے گیا ۔اب میں لق و دق ویرانے میں کھڑا تھا جہاں ہر سمت ہو کا عالم تھا ، میں نے اسے غور سے دیکھا ، وہ کوئ پرانا قبرستان تھا جس کی بیشتر قبریں یا تو کھنڈرات کا سماں پیش کر رہی تھیں یا منہدم ہو چکی تھیں ۔ اسی قبرستان میں اچانک مجھے ایک انسانی ہیولا اپنی جانب بڑھتا نظر آیا ۔ میں نے اس پر نظر گاڑ دیں ، وہ آہستہ اہستہ چلتا ہوا میرے سامنے آکر رک گیا ، وہ اس طرح تاریکی میں روپوش تھا کہ میں صرف اس کو حرکت کرتا دیکھ رہا تھا ، اس کی شکل نہیں دیکھ سکتا تھا ۔
”کسی کو بلا وجہ تنگ کرنا خداوند کریم کے نزدیک نا قابل؛ معافی گناہ ہے۔“ میں نے کچھ سوچ کر سائے سے کہا ۔”میری درخواست ہے کہ تم قلندر خان کا پیچھا چھوڑ دو ۔“
اس جواب مین دور دور تک قہقے گونجنے لگے۔ میں ان کی گونج واضح طور پر سن رہا تھا۔ وہ قہقے یقیناً میری بات کا رد عمل تھے چنانچہ میں نے جلدی سے اسے دوبارہ مخاطب کیا ۔
” میں بلا وجہ تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا لیکن اگر تم نے میرا کہا نہ مانا تو پھر میرے پاس تمہارے خلاف کوئ سخت قدم اٹھانے کے سوا کوئ چارہ نہیں رہے گا ۔“
قہقوں کی گونج تھم گئ لیکن اب آسمان پر کڑا کڑاتی بجلیاں چمکنے لگی تھیں ۔ بادلوں کی گھن گرج بھی اس میں شامل تھی ۔ پھر اس سے بیشتر کہ میں ان علامتوں سے کوئ نتیجہ اخذ کرتا ، میں نے ایک تناور درخت کو دیکھا جو تنکے کی طرح ہلکورے کھا رہا تھا ۔ پھر اس کی شاخیں اور ڈالیاں ٹوت ٹوٹ کر گرنے لگیں ۔ فضا مین چیخ کی آوازیں سنائ دینئ لگیں پھر موسلادھار بارش شروع ہوق گئ ۔ بارش کی شدت سے بچنے کی خاطر میں کسی پناہ گاہ کی تلاش میں پلٹا تو میری آنکھ کھل گئ ۔ میں اپنی خواب گاہ میں بستر پر موجود تھا ۔
میں خواب گاہ میں نظر آنے والی علامتوں میں غور کرنے لگا اور انکی کڑیوں کو ترتیب وار ملانے کی کوشش میں مصروف ہو گیا ۔ میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ میں نے خواب کی حالت میں جو کچھ دیکھا تھا اس کا تعلق یقینی طور پر قلندر خان کھوسو والے معاملے ہی سے تھا ۔
گڑیا ، گھر ، قبرستان ، سسکیوں اور ہچکیوں کی آوازیں ، پھر بجلی کی کڑک اور بادل کی گرج ، کسی درخت کا ٹوٹنا پھر بارش کا ہونا ، یہ باتیں میرے ذہن میں میں باری باری گونج رہی تھیں ، میں بڑی دیر تک خواب میں نطر آنے والی علامتوں میں غور کرتا رہا پھر میرے ذہن میں جو خیال آیا وہ یہ تھا کہ وہ کوئ جلالی عمل تھا جس کا توڑ میرے بس کی بات نہیں ہے یا پھر وہ علامتیں مجھے قلندر خان کھوسو کے معاملے سے دست کش ہونے پر مجبور کر رہی تھیں ۔ دوسری صورت میں جو کچھ کرایا گیا تھا وہ کوئ گندہ عمل تھا جو مجھے ڈرا دھمکا کر خوف زدہ کرنا چاہتا تھا ۔ خاصی دیر تک میں ان گتھیوں کو سلجھانے میں مصروف رہا ، پھر چاروں قل اپنے اوپر دم کرکے سونے کے ارادے سے لیٹ گیا ۔
دوسری صبح قلندر خان میرے پاس آیا تو بہت گھبرایا ہوا نظر آرہا تھا ، ” میاں سائیں ! میں فوری طور پر اپنے علاقے میں واپس جا رہا ہوں ۔“
”کوئ خاص وجہ !“میں نے اس کی بوکھلاہٹ کو محسوس کرتے ہوئے دریافت کیا ۔
”رات میرا ایک آدمی علاقے سے آیا ہے اس نے جو باتیں بتائیں ، وہ میری سمجھ میں نہیں آرہی ہیں ۔“ قلندر خان نے الجھتے ہوئے جواب دیا۔” اب شاید موت ہی مجھے تمام پریشانیوں سے نجات دلا سکتی ہے۔“
”بات کیا ہے؟ “ میں نے دوبارہ ٹٹولا ۔ ” آنے والے نے کیا بتایا ہے تمہیں ؟ “
” کل رات میری حویلی میں بھونچال آگیا تھا ۔“ وہ تھوڑے توقف کے بعد بولا ۔ ” مجھے یہی اطلاع ملی ہے کہ حویلی میں کئ جگہ ٹوٹ پھوٹ ہوئ ہے ، خاص طور پر اس حصے میں جو برگد کے درخت اور کنویں کے قریب ہے ۔ بتانے والے نے یہ بھی کہا ہے کہ برگد کے درخت کی کئ تناور شاخیں بھی اس طرح ٹوٹ کر گری ہیں کہ کنواں اندر بیٹھ گیا ہے ۔ اس کے علاوہ حویلی کے احاطہ کے اندر تیز بارش بھی ہوئ ہے جبکہ دوسرے تمام علاقے خشک ہیں ،زمین کا حصہ جہاں آپ نے تعویذ دفن کرانے کو دیا تھا ، ایک چھوٹا سا غار بن گیا ہے۔“
میں نے کوئ جواب نہیں دیا ، خواب میں نظر آنے والی علامتیں میرے ذہن میں پھر تازہ ہونے لگیں۔
”شاید ہم نے وہ جگہ کھود کر اچھا نہیں کیا ۔“ قلندر خان نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا ۔” ہمیں
وہاں ہاتھ نہیں ملانا چاہئے تھا ۔“
”یہ خیال تمہیں اس وقت کیوں آرہا ہے ؟ “ میں نے چونک کر اس کے چہرے پر نظر ڈالی جو زردی مائل دکھائ دے رہی تھا ۔
”میرا دل کہتا ہے کہ سب کچھ اسی کی وجہ سے ہوا ہے ۔“ اس نے جواب دیا ۔” تازہ تازہ خون سفید بالوں کا گچھا بار بار میرے میں ابھرتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ میرے دشمنوں نے اسی مقام پر کوئ جادو کی ہانڈی دفن کرادی ہے جسے چھیڑ کر ہم نے مصیبت مول لی ہے ۔ اس کی بدولت میرا وہ آدمی بھی پاگل ہو گیا جس نے آپ کا دیا ہوا تعویذ دفن کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اب اسی حصے میں تباہی کا ہونا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کسی کم ذات نے میرے خلاف جو گندہ جادو کرایا ہے اس کا توڑ کرنا آپ کے اختیار میں بھی نہیں ہے۔“
اپنے بارے میں اس کی رائے کو میں نے نظر انداز کر دیا ، اس لئے کہ وقتی طور پر اس کی جو کیفیت تھی اس میں کسی عقل یا ہوش مندی کی بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ۔ میں خاموش رہا تو قلندر خان نے پہلو بدل کر سوال کیا ۔”میرے لئے اب کیا حکم ہے پیر سائیں؟“
”میرا مشورہ ہے کہ تم اپنی بڑی بیوی کا جس کے پاؤں بھاری ہیں ، حویلی سے کسی اور جگہ منتقل کر دو ۔“ میں نے سوچ کر جواب دیا ۔ ” اس سے کیا فرق پڑ جائے گا ؟ “
” میں اس کے لئے تمہیں ایک تعویذ اور لکھ کر دیتا ہوں جسے تم حاملہ کی کمر سے باندھ دینا اور ولادت کے بعد ہی اسے کھول کر کسی ایسی جگہ دبا دینا جہاں کسی کے پاؤں پڑنے کی توقع نہ ہو ۔“ میں نے گہری سنجیدگی سے کہا : ”موت اور زندگی خدا کے اختیار میں ہے قلندر خان لیکن اس کے کلام میں بڑی برکت ہے۔ مجھے بھروسہ ہے کہ وہ اس بار تمہیں مایوس نہیں کرے گا ، تمہاری بڑی زوجہ کے گھر جو اولاد ہوگی اس کا کم از کم وہ انجام نہیں ہوگا جو پہلے تمہیں پریشان کر چکا ہے ۔“
” اور کل رات جو کچھ ہوا ہے ؟ “
” اسے فی الحال بھول جاؤ ۔“ میں نے اسے مشورہ دیا ۔” اپنے آدمی سے بھی کہہ دو کہ وہ اپنی زبان بند ہی رکھے ، البتہ برگد کے درخت کی شاخ کی صفائ کرادو اور ہو سکے تو جس حصے میں کنواں تھا وہ جہاں کھدائ کی گئ تھی اس کے اطراف احاطہ کھینچ پھول اور پودے لگادو اور ملازموں کو تنبیہ کر دو کہ ادھر دن ڈھلے کے بعد کوئ جانے کی غلطی نہ کرے ۔“
”پیر سائیں۔“ قلندر خان نے جو بدستور ذہنی طور پر الجھا نظر ارہا تھا ، ہونٹ کاٹتے ہوئے
بولا ۔” کیا آپ کو بھروسہ ہے کہ جو گندہ جادو یا ٹونا میرے اوپر کرایا گیا ہے ، آپ اس کا
توڑ کر سکیں گے ؟ “
”خدا پر بھروسہ رکھو قلندر خان ، وہ اپنے بندوں کو آزمائش میں ضرور ڈالتا ہے لیکن اس کی ذات کڑی دھوپ میں بارش برساتی ہے ۔“
میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا ۔” فی الحال میرے کہنے پر عمل کرو اور میں تمہارے لئے
کچھ اور راستہ اختیار کرتا ہوں ۔“
میں نے قلندر خان کو دوسرا تعویذ دے کر رخصت کر دیا ۔ اس کے بعد بڑی شد و مد سے اس طاقت کو نیچے دکھانے کے بارے میں غور کرنے لگا جس نے قلندر خان کو میری طرف سے وسوسے میں ڈال دیا تھا ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ پہلا موقع تھا جب مجھے اپنی ناکامی پر غصہ آیا تھا ، میں نے دوروز بعد ایک اور جلالی عمل کیا جو رحمانی عمل سے قدرے مختلف تھا ۔( اللہ معاف کرے)
میں نے آٹے کا ایک پتلا بنا کر اس کے چہرے کو اس طرح بگاڑ دیا کہ کسی جنس کا گمان نہ ہو ۔ اس کے سر پر دم کی ہوئ کئ سوئیاں گاڑیں پھر اسے سکندر علی کے حوالے کرکے تاکید کہ وہ اسے نصف رات گئے خاموشی سے کسی شمشان گھاٹ( جہاں ہندوؤں کے مردے جلائے جاتے ہیں) پر جا کر اس طرح دبائے کہ اس پر کسی اور کی نظر نہ پڑے ۔ یہ عمل میں نے کسی اور سے سیکھا تھا لیکن اس کا عملی مظاہرہ اس سے بیشتر نہیں کیا تھا ۔
چار روز بعد قلندر خان دوبارہ میرے پاس آیا ۔ وہ بہت جلدی میں تھا لیکن اس کے چہرے سے پریشانی مترشح نہیں تھی ۔” پیر سائیں! میں آپ کو یہ خبر دینے آیا ہوں کہ میں نے اپنی بڑی بیوی کو حویلی سے ہٹا دیا ہے اور آپ کے دوسرے کہنے پر بھی عمل کرادیا ہے ۔آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مشکل آسان کردے اور پریشانیوں سے نجات دلا دے ۔“
” اور کوئ بات ! “
” جی ہاں ۔“ اس نے تیزی سے یاد کرتے ہوئے کہا ۔” میں ابھی خود پاگل خانے نہیں گیا لیکن میرے ایک معتبر آدمی نے خبر دی ہے کہ جو آدمی تعویذ دفن کرتے ہوئے پاگل ہو گیا تھا اب ٹھیک ہو رہا ہے ۔“
” خدا نے چاہا تو وہ بالکل صحت مند ہا جائے گا ۔“ میں نے سنجیدگی سے جواب دیا ، پھر کچھ سوچ کر پوچھا۔” قلندر خان ، یاد کرکے بتاؤ کیا تم نے اپنی کسی بیوی کے یہاں ولادت سے پہلے کوئ پالنا بھی بنوایا تھا یا خریدا تھا ؟ “
قلندر خان میرا سوال سن کر اس طرح چونکا جیسے میں نے اس کی کسی دکھتی ہوئ رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو لیکن پھر فوراً ہی وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولا ۔” میری حویلی میں تو کئ پالنے سُونے پڑے ہیں پیر سائیں ۔“
قلندر خان کے جواب میں میری تسلی نہیں ہوئ ۔ میرا دل گواہی دے رہا تھا کہ کوئ بات ایسی ضرور ہے جو اس کے علم میں ہے لیکن وہ اسے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ میں نے خواب کے حوالے سے پالنے کا ذکر چھیڑا تھا جس نے قلندر خان کو ایک لمحے کے لئے گڑبڑا دیا تھا ، مجھے سکندر علی کی باتیں یاد آئیں ۔ قلندر خان کی اپنی شرارت کو بھی دخل ہے لیکن میں نے اس بات پر یقین نہیں کیا تھا ، میرے خیال میں قلندر خان کم از کم اتنا شقی القلب نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے ہاتھوں سے اپنی خوشیوں کا خون کر سکتا تھا لیکن اب میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ قلندر خان کسی نہ کسی زاویے سے یہ بات ضرور جانتا ہے کہ اس پر گردش نازل ہونے کا سبب کیا ہے ۔
”میں نے تمہاری پریشانی دور کرنے کی خاطر ایک جلالی عمل کیا ہے ۔“ میں نے قلندر خان کو باور کراتے ہوئے جواب دیا ۔” میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ انسان جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹتا بھی ہے ۔ اگر تمہارے علم میں کوئ ایسی بات ہو جسے تم اپنی پریشانی کا سبب سمجھ رہے ہو تو اب بھی مجھے بتادو ۔ ہو سکتا ہے کہ تمہارے لئے اور کچھ کرسکوں ، لیکن اگر وقت گزر گیا تو پھر بات میرے ہاتھ سے بھی نکل جائے گی ۔“
”آپ مجھ پر کس بات کا شبہ کر رہے ہیں ؟ اس بار قلندر خان نے ناگوار انداز میں مجھے گھورا ۔” کیا آپ کا خیال ہے کہ میں خود ہی اپنی پریشانیوں کا ذمے دار ہوں اور کسی خوف سے زبان بند کئے ہوئے ہوں ؟ “
”میرا یہ مطلب نہیں تھا لیکن۔۔۔۔۔۔“
”معاف کرنا پیر سائیں۔۔۔۔۔۔“وہ میری بات کاٹ کر بولا۔” میں سردار ہوں اور سردار کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا ۔ اتفاق سمجھ لیں کہ ایک ضرورت مجھے آپ کی چوکھٹ تک لے آئ ہے ، ورنہ قلندر خان نے کبھی کسی کے سامنے جھکنا یا ہاتھ پیر پھیلانا نہیں سیکھا۔“
”تم شاید میری بات کا غلط مطلب سمجھ رہے ہو ۔“ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔” کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی دانست میں کوئ نیک قدم ہی اٹھاتا ہے لیکن وہی قدم اس کے حق میں پریشان کن ثابت ہوتا ہے ۔“
قلندر خان اپنی جگہ کسمسا کر رہ گیا ۔ اس نے اپنے تلخ جملے کی معافی طلب کی پھر دوبارہ واپس آنے کا کہہ کر چلا گیا ۔ میں نے جاتے جاتے اسے سختی سے ہدایت کر دی تھی کہ وہ اپنی
بڑی بیوی کے یہاں بچے کی ولادت کے ایک ہفتے کے اندر اندر مجھے ضرور ملے ۔
میں نے سکندر علی سے شمشان گھاٹ پر آٹے کا جو پتلا دفن کرایا تھا وہ اس مقصد کے لئے تھا کہ جس شخص نے بھی قلندر خان کو پریشان کر رکھا ہے یا تو وہ اس کا پیچھا چھوڑ دے یا پھر سامنے آکر اپنے کئے کی معافی مانگے ، اس عمل کے کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا تھا کہ میں نے رحمانی طریقے کو چھوڑ کر کوئ ایسا راستہ اختیار کیا جو میرے لئے مناسب نہیں تھا۔ لیکن قلندر خان کی باتوں نے مجھے ذہنی طور پر ڈگمگا دیا تھا ، میرے اندر ”میں“ کا جذبہ ابھر آیا تھا ۔
پتلے کو دفن کرائے چھ ہفتے گزر چکے تھے ، اس عرصے میں قلندر خان دو تین بار مجھ سے مل چکا تھا ۔ اس نے یہی بتایا تھا کہ اس کی بیوی خیریت سے ہے ، جو آدمی پاگل ہوا تھا وہ بھی ٹھیک ہو چکا ہو چکا تھا لیکین اسے اپنے پاگل ہونے کی وجہ کا کوئ علم نہیں تھا ، وہ گزری ہوئ تمام باتیں بھول چکا تھا ۔ چھ ہفتے بعد قلندر خان نے ایک روز اپنے۔۔۔۔۔۔کارندے کے ہاتھ یہ پیغام بھیجوایا کہ اب اس کی بیوی کے ہاں زچگی میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔( جیسا کہ لیڈی ڈاکٹر نے خیال ظاہر کیا تھا ) اور میں اس کے ہونے والے بچے کی سلامتی کے لئے دعا کروں ۔ اس کے دس روز بعد قلندر خان خود مجھ سے ملنے آیا ۔ اس کے چہرے پر خوشی اور غم کے ملے جلے اثرات نظر آرہے تھے ۔ یقینی طور پر کوئ ایسی بات ہوئ تھی جس نے اسے دگرگوں کیفیت سے دوچار کر دیا تھا ۔
”اور سناؤ قلندر خان۔“میں نے اس کی خیریت دریافت کی ،” اب کیا صورت حال ہے ؟ تمہاری بیوی کے ہاں زچگی ہوئ یا نہیں ؟ “
”آپ کی دعاؤن سے بیٹا ہوا ہے پیر سائیں لیکن وہ سن نہیں سکتا ۔دونوں کانوں سے بہرا ہے۔“
”ڈاکٹروں کا کیا خیال ہے ؟ “
”وہ اپنی کوشش کر رہے ہیں لیکن میں نے بزرگوں سے سن رکھا ہے کہ جو نقص پیدائشی ہو وہ دور نہیں ہوتا ۔“
میں نے جواب دینے کے بجائے آنکھ بند کرکے مراقبہ کیا ، پھر کچھ دیر بعد آنکھیں کھول کر قلندر خان کو دیکھنے لگا ، جو اشارہ مجھے نظر آیا تھا وہ میں نے قلندر خان کے گوش گزار نہیں کرنا چاہتا تھا پھر بھی میں نے اسے سنجیدگی سے مخاطب کیا ۔” تمہار بیٹا فی الحال قوتِ سماعت سے محروم ضرور ہے لیکن اس کی سماعت واپس لوٹ آئے گی ۔“
”سچ پیر سائیں !“ قلندر خان کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئ پھر اس نے کچھ سوچ کر
سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔“ پیر سائیں ، میرا بیٹا زندہ تو رہے گا ؟ “
” خدا نے چاہا تو وہ طویل عمر پائے گا ۔“
” اس کی سال گرہ ہو جائے تو میں آپ کا منہ موتیوں سے بھر دوں گا پیر سائیں ۔“ اس نے ترنگ میں آکر کہا ۔
”میری دو باتوں کا خیال رکھنا قلندر خان ۔“ میں نے اسے تاکید کی ۔
” سالگرہ سے پہلے زچہ و بچہ دونوں کو حویلی سے دور رکھنا ۔ اس کے علاوہ پانچویں وقت کی نماز پابندی سے پڑھنی شروع کر دو اور ہر وقت توبہ استغفار کرتے رہا کرو ، آگے جو قدرت کو منظور ہو ۔“
”پیر سائیں ! “ قلندر خان نے ہاتھ باندھ کر عرض کی ۔ آپ میرے بیٹے کا نام بھی تجویز کر دیں تو مہر بانی ہو گی ۔“
” عنایت اللہ “ میں نے تھوڑے توقف سے کہا ۔ ” تمہیں جو خوشی قدرت نے عنایت کی ہے اس کے پیش نظر یہی نام مناسب رہے گا ۔“
”جو حکم پیر سائیں ۔“ قلندر خان نے مجھے تعریفی نگاہوں سے دیکھا پھر اٹھتے ہوئے بولا ۔” میری ایک درخواست ہے ۔ عنایت اللہ کی پہلی سالگرہ میں بڑی دھوم دھام سے کروں گا ۔ میری خوشی ہو گی کہ آپ بھی اس میں شرکت کریں ۔“
”وقت آنے دو قلندر خان میں تمہاری خوشیوں میں شریک ہونے کی کوشش کروں گا ۔“
”سائیں ! وہ جاتے جاتے مجھے دیکھ کر بولا ۔“ میرا بیٹا سن اور بول تو لے گا نا ۔“
اس پر بھروسہ رکھو ، وہی بہتر کرے گا ۔
قلندر خان خوشی خوشی چلا گیا لیکن میں اپنی جگہ مراقبے میں ملنے والے اشارے پر غور کرنے لگا ۔ مجھے جو کچھ نظر آیا وہ تو سو فیصدی قلندر خان کے حق میں نہیں جاتا تھا ۔ اس رات میں نے قلندر خان کے لئے دعا کرنے کی خاطر خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گیا لیکن سجدے کی کیفیت ہی میں ، میں نے بجلی کے کڑکنے اور بادل کے گرجنے کی آواز سنی میرے نزدیک اس بات کی ترجمانی کرتی تھی کہ خداوند کریم مجھ سے خوش نہیں ہے ، میں سر تا پا لرز اٹھا ۔ نماز پوری ہونے کے بعد میں نے توبہ استغفار شروع کر دی ۔
یہ پہلا موقع تھا جب مجھے مایوسی کا شدید احساس ہو رہا تھا ، یقیناً مجھ سے کوئ ایسی حرکت سرزد ہوئ تھی جو کاتب تقدیر کو پسند نہیں آئ تھی ، غالباً میں نے رحمانی طریقے
سے ہٹ کر جو پتلے والا عمل کیا تھا وہی میری پکڑ کا باعث بن گیا تھا ۔ میں سر جھکائے آہ و زاری کرتا رہا ، اس کے حضور مجرموں کی طرح ہاتھ باندھے معافی کی درخواستیں کرتا رہا ، میری آنکھوں سے آنسؤں کی جھڑی لگ گئ تھی ۔ مجھے اپنا ہوش نہیں تھا ، صرف ایک خیال میرے پورے وجود کو لرزہ بر اندام کر رہا تھا ، میری ایک غلطی ، قدموں کی ایک لغرش نے مجھے اس قادر مطلق کی نگاہوں میں شرمندہ کر دیا تھا جس نے مجھے اپنی رحمتوں سے اپنے کرم سے نواز رکھا تھا ۔

درویش کا خواب

میں آنکھ بند کئے سچے دل سے توبہ کرتا رہا ، گڑگڑاتا رہا ، اس کی شان کریمی سے رحم کی درخواست کرتا رہا ، میرے اوپر وجد اور وقت کی ملی جلی کیفیت طاری ہورہی تھی ، پھر میں نے مدہوشی کے عالم میں ایک سفید ریش بزرگ اپنے سامنے کھڑا دیکھا جو سرتاپا سفید لباس میں ملبوس تھے ، ان کے سر کے بال دیکھ کر میری حالت غیر ہونے لگی ، مجھے سفید بالوں کا وہ گچھا یاد آرہا تھا جو میں استخارے کے دوران دیکھ چکا تھا ۔ بزرگ کے ہاتھوں میں سفید رنگ کی ہی ایک تسبیح تھی جس پر ان کی نرم و ملام انگلیاں گردش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ وہ کسی وظیفے کا ورد کر رہے تھے لیکن ان کی نگاہیں بدستور میرے چہرے پر مرکوز تھیں ، ان کے جاہ و جلال کا یہ عالم تھا کہ میں ان سے مخاطب ہونے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا ، وہ یقیناً خدا کا کوی نیک اور بزرگ بندہ تھا جو مجھ سے زیادہ قوت کا مالک تھا ۔
” میں حاضر ہوں۔“ کچھ توقف کے بعد بزرگ کی نرم آواز میرے کانوں میں اتری ۔”تم نے مجھ کو یاد کیا تھا ؟ “ ۔
” میں نے۔۔۔۔۔۔“ میں گڑبڑا کر رہ گیا ۔
”تم شاید بھول رہے ہو ۔“ بزرگ کے گلابی ہونٹوں پر بڑی ملکوتی مسکراہٹ ابھری ، تم نے دم کی ہوئ سوئیاں آٹے کے پتلے کے سر میں اسی لئے اتاری تھیں کہ میں تم سے رابطہ کروں ، چنانچہ خدا کے حکم سے حاضر ہوں ۔ کہو ، کیا کہتے ہو ؟ “۔
بزرگ کی بات سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئ میں جو اندازے لگا چکا تھا وہ ایک پل میں باطل ہو گئے ، بزرگ کے جواب سے صاف ظاہر تھا کہ قلندر خان کی پریشانیوں کا کچھ تعلق انکی ذات سے بھی تھا ۔
خدا کے بھید کو وہی بہتر جانتا ہے ۔ قلندر خان کو کس گناہ کی سزا دی گئ تھی ، میں ابھی تک اس گہرائ کو نہیں پاسکا تھا ، البتہ اس کے یہاں آخری ولادت ہونے کے بعد میں نے مراقبہ کی حالت میں یہی دیکھا تھا قلندر خان سفید بالوں میں بری طرح الجھ کر بے بس ہو رہا ہے اس پر نزع کی کیفیت طاری نظر آرہی تھی جسے میں نے اس پر ظاہر کرنا مناسب
نہیں سمجھا تھا ، لیکن میں نے یہ ضرور جان لیا تھا کہ اب وہ کسی جان لیوا حالات سے ضرور دو چار ہونے والا ہے ۔
” تم خاموش کیوں ہو ؟ “ بزرگ نے دوبارہ بے حد ٹھنڈے اور ٹھرے ہوئے لہجے میں مجھ سے کہا ۔”کیا تم نے مجھے سامنے لانے کی خاطر ایک غلط عمل کا سہارا نہیں لیا تھا ؟ “ ۔
”میں اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں ، میں نے سچے دل سے کہا ، میں نے دانستہ نہیں کیا تھا۔“
”تم نے اس قادر مطلق کو فراموش کرکے اپنی قوت کو آزمانا چاہا تھا ۔“
”ہاں میرے بزرگ ، لیکن میں خدا سے تمام زندگی اپنی اس غلطی کی توبہ کرتا رہوں گا۔۔۔۔۔۔مجھ سے شناخت میں جو غلطی سرزد ہو چکی ہے وہ ہمیشہ میری اصلاح کرتی رہے گی ۔“
” انا کو مارنے کی کوشش کرو ۔“ بزرگ نے نصیحت کی ۔ ” تمہاری آہ و زاری اور توبہ اس کے حضور میں قبول ہو چکی ہے ورنہ اس وقت بھی تمہارے سامنے نہ آتا ۔“
” میں بھٹک گیا تھا میرے بزرگ۔۔۔۔۔۔“ میں نے آب دیدہ ہو کر اپنی غلطی کا اعتراف کیا ، ” میرے حق میں دعائے مغفرت فرمادیں ۔“
” وہ جو غلط اور صحیح میں شناخت نہیں کر پاتے وہ صراط مستقیم سے بھٹک جاتے ہیں اور جو حق کے راستے سے دور ہوتے ہیں وہ عتابِ الہی اور قہر خداوندی کا شکار ہوجاتے ہیں ، قلندر خان کو بھی اسی بات کی سزا مل رہی ہے کہ اس نے شناخت کرنے میں جلد بازی سے کام لیا تھا اور خدا کے مقابلے میں اپنی وقتی اور عارضی قوت کے فریب میں مبتلا ہو گیا تھا ۔ اب تمہارے آنسو اور دعائیں اس کے کام آجائیں گی لیکن خوشیاں اس کے نصیب سے روٹھ گئ ہیں ، کاتب نے جو فیصلہ کر دیا ہے وہ اٹل ہے ۔“
”میں نے ایک معصوم اور بے گناہ بچے کی زندگی کی درخواست کی تھی ۔“
” مجھ علم ہے ۔“ بزرگ نے آہستہ سے جواب دیا ۔” جس معصوم نے اب اس دنیا میں آنکھوں کھولیں ہیں ، خدا کی رحمتوں کے سائے تلے پروان چڑھے گا ۔ اس کی سماعت اسے واپس مل جائے گی لیکن اس کے لئے ایک وقت کا تعین کر دیا گیا ہے ۔ اس کے راز وہی سمجھتا ہے ۔ سزا اور جزا دونوں اس کے اختیار میں ہیں ۔“
”بے شک وہ قادر مطلق ہے جس کے سامنے تمام قوتیں ہیچ ہیں ۔“ میں نے اقرار کیا ۔
” اور کچھ جاننا چاہتے ہو ؟ بزرگ کے ہونٹوں پر ایک تبسم جاگ اٹھا ۔“
”نہیں ۔“ میں نے جلدی سے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا ۔ میں اب کوئ گستاخی نہیں کر سکتا ۔“
”لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ قلندر خان کی پریشانی کا راز کیا ہے ۔“ بزرگ نے آسمان کی سمت نگاہ کر کے کہنا شروع کیا ۔” اس نے اپنی ایک معصوم اور بے گناہ بیوی پر بے جا شک کیا تھا ۔ وہ خدا کی نیک بندی بے حد نیک ، ملنسار اور عبادت گزار تھی ۔ قدرت نے اسے سیرت کے علاوہ حسن صورت سے بھی نوازا تھا ۔ وہ ہر چھوٹے بڑے کا دکھ درد بانٹنے کی عادی تھی لیکن قلندر خان نے اس کے اجلے کردار پر شبہ کیا تھا ۔ اس معصوم کے گھر جو ولادت ہوئ اس پر ناجائز ہونے کا شک کرکے خاموشی سے مروا دیا ۔ اولاد کے غم نے اس بے گناہ عورت کو دیوانہ کردیا ۔ اس میں بھی خدا کی مصلحت تھی ۔ قلندر خان اس کے پاگل ہونے پر خوش تھا کہ وہ اپنی صفائ میں کچھ نہ کہہ سکے گی ، لیکن خدائے ذوالجلال کی دور بین نظروں میں اس کی پاکیزگی مسلمہ تھی ۔ چنانچہ قلندر خان کی قسمت میں اولاد کی محرومی لکھ دی گئ ۔ یہ عذاب الہی تھا جو قہر بن کر اس پر ٹوٹتا رہا پھر قسمت اسے تمہارے حجرے تک لے آئ ۔ شاید خدا کو تمہارا امتحان بھی مقصود تھا ۔“
بزرگ کا آخری جملہ سن کر میرا سر ایک بار پھر شرمندگی سے جھک گیا ۔ میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے ۔ میں دل ہی دل میں توبہ استغفار کرنے لگا ۔
بزرگ میری حالت پر ایک لمحہ خاموش ہوئے پھر تفصیل بتاتے ہوئے بولے ۔” جس مظلوم کی گود کو اجاڑا گیا تھا وہ دیوانگی کی حالت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئ۔۔۔۔۔۔ قلندر خان نے اسے پاگل ہونے کے بعد حویلی کے تہ خانے میں پھٹکوا دیا تھا ۔ اس کی موت واقع ہونے کے بعد اس کی تہجیز و تکفین کرنے کے بجائے اس شقی القلب انسان نے اس مجبور عورت کو ، جس کا دل مرتے وقت یاد الہی سے معمور تھا ، حویلی کے بعد کنویں میں پھینکوا دیا تھا ۔ اپنے خیال میں قلندر خان نے دنیا والوں سے سب کچھ چھپا لیا تھا لیکن وہ بھول گیا تھا ، ایک قوت اور بھی ہے جو دلوں کی ایک ایک دھڑکن کی ترجمانی سے بھی واقف ہوتی ہے ۔ چنانچہ قلندر خان کی دراز رسی جب کھینچی گئ تو وہ بلبلا اٹھا ۔ اس کے بعد کیا ہوا تم اس کو اشاروں کنایوں میں دیکھ چکے ہو ، لیکن افسوس تم بھی سچائ کی شناخت سے قاصر رہے ۔“
”میں اسے اپنی قسمت کی محرومی کہوں گا ۔“ میں نے جواب دیا ۔
”سچے آنسو گناہ کو دھو ڈالتے ہیں ، ریا کاری اس کو پسند نہیں ، وہ ان لوگوں پر توبہ کے دروازے بھی بند کر دیتا ہے جو اس کی وحدت سے منکر ہو کر اپنی قسمت آپ رقم کرنے کے
چکر میں مبتلا ہاجاتے ہیں ، اسی لئے اس کی مقدس کتاب میں جگہ جگہ تنبیہ کی گئ ہے کہ اس سے ڈرتے رہو ، اس کی اطاعت کرو ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لئے رہنمائ کا آئینہ بنالو اور ہمیشہ اس سے سکون اور عافیت کی دعا مانگو ، وہ بڑا قادر مطلق ، رحم دل اور کرم نواز ہے ، سچے دل سے گناہ کی توبہ کی خاطر سجدہ ریز ہو تو وہ اپنی شان کریمی کے صدقے بندے کی غلطیوں کو در گزر کر دیتا ہے ، رحمتوں اور برکتوں سے نواز دیتا ہے لیکن جو غلط شناخت اور بد دیانتی سے کام لیتے ہیں وہ انہیں ایسے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے کہ کسی کروٹ چین نصیب نہیں ہوتا ۔
تمہیں بھی نصیحت کروں گا کہ کسی کی داد رسی کرتے وقت آنکھیں کھلی رکھا کرو ۔ شناخت اور ناپ تول میں جلدی بازی سے گریز کی عادت دالو اور ”میں“ کی حماقت میں کبھی نہ پڑو کہ یہ انسان کو گمراہ کر دیتی ہے ۔“
پھر بزرگ نے تسبیح والا ہاتھ بلند کرکے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور نظروں سے اوجھل ہو گئے ، میں ہڑ بڑا کر ہوش میں آگیا ،میرا چہرہ بدستور آنسوؤں سے تر تھا ۔ قلندر خان کی بربادی کا راز مجھے معلوم ہو چکا تھا ۔
حسب وعدہ میں قلندر خان کے بیٹے عنایت اللہ کی سالگرہ میں شریک ہوا۔۔۔۔۔۔ قلندر خان نے بڑی دھوم دھام سے اہتمام کیا تھا لیکن شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ سانسوں کا سلسلہ کسی لمحے ٹوٹ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
ہنگاموں اور مہمانوں کے درمیان کیک کاٹا گیا۔۔۔۔۔تالیوں کی آواز گونجی تو عنایت اللہ نے رونا شروع کردیا ۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ قدرت نے اس معصوم کو قوت سماعت سے نواز دیا تھا ۔ قلندر خان کی خوشیوں کی کوئ انتہا نہیں تھی ۔ وہ تیزی سے دیوانہ وار اپنے بیٹے کو اپنی آغوش سے لگانے کی حسرت اس کے دل میں رہ گئ۔۔۔۔۔۔یہ اس بات کی سزا تھی کہ اس نے ایک عبادت گزار اور معصوم عورت کی شناخت میں غلطی سے کام لیا تھا اور اپنے دل کی گواہی پر نہ صرف اسے موت سے ہمکنار کر دیا تھا بلکہ اس کی لاش کی بھی بے حرمتی کی تھی جس کی سزا سے بہر حال بھگتنی پڑی تھی۔۔۔۔۔۔اس کی اپنی آغوش بھی اولاد سے محروم رہ گئ تھی ۔
خدا ہم سب کو اپنے عذاب سے محفوظ رکھے ۔ شناخت کی صلاحیتوں سے نوازے اور صراط مستقیم پر چلنے کی عادت ڈالے ، آمین ۔

کہانی سے حاصل ہونے والے اسباق

یہ کہانی عملیاتی لحاظ سے بہت اہم ہے ۔ اس میں کئ اسرار و رموز پوشیدہ ہیں جو اہل علم لوگ پڑھنے کے ساتھ ساتھ جان چکے ہوں گے ۔ مبتدی حضرات و خواتین کے لئے مختصر اہم اہم باتیں تحریر کی جاتی ہیں ۔
1۔ ادب اور اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی کسی اللہ والے بزرگ یا درویش کے پاس جاؤ تو ادب و احترام کا پورا پورا خیال رکھو ۔ ان سے دھیمے انداز میں اور اجازت لے کر کلام کرو ۔ اللہ والے بھی روحانی دنیا کے سردار ہوتے ہیں ۔ ان سے حاکمانہ انداز کے بجائے عاجزانہ انداز میں گفتگو کی جائے ۔ ان کی دل آزاری سے حتیٰ الامکان بچنا چاہئے ۔چونکہ ان کی ناراضگی پر مالک کائنات بھی ناراض ہوسکتے ہیں اور ان کے دل سے بد دعا بھی نکل سکتی ہے اور ہمیشہ اس بات کی کوشش کی جائے کہ بجائے کسی نوکر و خادم کے ، خود ان کی خدمت میں حاضری دے ۔
2۔ بزرگانِ دین ، اولیاء اللہ ، عاملین مشکل کشاء نہیں ہوتے ۔ انہوں نے تو مالک کائنات کے سامنے درخواست ہی پیش کرنا ہوتی ہے ۔ قبولیت اور عدم قبولیت مالک کے ہاتھ میں ہے اور ہر کام کے ہونے کا وقت کاتب تقدیر نے مقرر کر رکھا ہے اور اسی وقت ہوتا ہے ۔ کام ہونے یا نہ ہونے پر انسان کسی کو غلط یا ٹھیک نہیں قرار دے سکتا ۔
3۔ عاملین کو علاج سے پہلے تمام عوامل اور اسباب پر ضرور نظر ڈالنی چاہئے اور سابقہ علاج کی تمام تفصیلات بھی مختصراً پوچھ لینی چاہیں اور ان میں ناکامی کی وجہ کو بھی لازماً مد نظر رکھنا چاہئے ۔ بعض اوقات دور بیٹھ کر معاملے کی تہہ تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور متاثرہ مکان وغیرہ میں خود جاکر چیک کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔
4۔ ہر کام میں بغیر سوچے سمجھے ہاتھ نہیں ڈال دینا چاہئے ۔ بلکہ استخارہ اور کامل تشخیص کے بعد ہی علاج شروع کرنا چاہئے ۔
5۔ اپنے روحانی و جسمانی معالج سے کوئ بات پوشیدہ کبھی بھی نہیں رکھنی چاہئے اور نہ ہی جھوٹ بولنا چاہئے ۔ اور معالج کو بھی دیکھنا چاہئے کہ معاملہ سچا ہے یا جھوٹا ،
ہمیشہ پیسوں کی خاطر کبھی غلط کام نہیں کرنا چاہئے اور عمل یا علاج سے پہلے صدقہ لازمی کروانا چاہئے ۔ اس لئے صدقہ سے بلائیں ٹل جاتی ہیں اور بندہ خدا کی خاص حفاظت میں آجاتا ہے ۔
6۔ بعض سفلی جادوگر بذریعہ جنات تعویذات وغیرہ غائب کروا دیتے ہیں ، بعض اوقات شیطانی چیزوں خود بھی ایسی حرکتیں ہیں ۔
7۔ عوام الناس روحانی علاج کو کھیل تماشا یا بالکل معمولی سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ روحانی معالج اپنے مریضوں کی وجہ سے خطرات سے کھیلتا ہے ۔ بعض اوقات تو سفلی کاٹ میں یا سخت کیس میں عامل موت کے منہ میں ہاتا ۔ دوسروں کی جان بچاتے بچاتے اس کی اپنی جان جانے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے ۔ لوگوں کے لئے وہ اپنی زندگی ، اپنے بچوں کی زندگی اور اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتا ہے ۔
8۔ روحانی علاج کے دوران پیش آنے والے واقعات اور روحانی علاج کا تذکرہ اپنے معالج کے علاوہ کسی سے ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہئے ، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جن کے سامنے آپ تذکرہ کر رہے ہوں ، وہی آپ کے دشمن ہوں اور آپ پر جادو کروارہے ہوں ۔ اس حالت میں وہ کام کو سخت کروادیں گے ، جس میں آپ کا علاج بھی ناکام ہو سکتا ہے ۔
9۔ مریضوں کو اپنے روحانی معالج سے کبھی بھی بدتمیزی سے پیش نہیں آنا چاہئے ۔ اس میں بعض اوقات مریض اپنا بہت نقصان کروا بیٹھتا ہے ۔
10۔ بعض اوقات انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے حالات کی دلدل میں پھنس جاتا ہے ۔ اب بجائے توبہ کرنے کے ، عاملوں کے چکروں میں پڑ جائے گا ۔ اور کام نہ ہونے پر عاملوں کے جھوٹا اور فراڈی ہونے کے فتوے صادر کرے گا ۔ بے شک سبھی عاملین نیک مخلص نہین ہوتے لیکن سبھی غلط بھی تو نہیں ہوتے ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ عقیدہ ہی غلط ہے کہ عامل اپنی مرضی سے سب کچھ کرسکتا ہے ۔ کیونکہ عامل نے تو اسباب کی حد تک فقط رہنمائ اور معاملے کے حل کی کوشش کرنی ہے ۔ رزلٹ اور نتیجہ تو ہر کام کا من جانب اللہ ہی ہوتا ہے ۔
تیسری بات یہ کہ لوگوں کی اکثریت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی ، احکامات شریعت سے دوری ، حدود اللہ کی پامالیاں اور غیر شرعی ، ناجائز کاموں کی وجہ سے اللہ کی
پکڑ اور عذاب کو عامل کیسے ہٹا سکتے ہیں ؟ اس کے لئے اللہ سے سچی معافی ، اس کے سامنے ندامت کے آنسو ، گناہوں کے ماحول سے اجتناب اور احکاماتِ شریعہ کی پیروی ضروری ہے ۔ اللہ کی پکڑ کو اللہ ہی ہٹا سکتے ہیں ، کوئ عامل نہیں ۔(ماہنامہ خزینہ روحانیات)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*