جب نیند موت دیتی ہے : نیند کے فالج (سلیپ پیرالایسز ) کا علاج
ڈر اور خوف انسانی زندگی کے ایسے دو پہلو ہیں کہ جن کا سامنا کرنا ہر انسان کے لیے لازم و ملزوم ہے۔یہ خوف اور ڈر مختلف چیزوں اور مختلف وجوہ کی بنا پر ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کے کچھ خوف ایسے ہیں کہ کسی تدبیر کا سہارا لے کر ان سے پہلو تہی کی جا سکتی ہے لیکن کچھ خوف ایسی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جن کے سامنے کوئی انسانی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ اسی طرح کا ایک خوف نیند اور خواب کے تال میل کی پیداوار ہے۔ یہ خوف اس انتہا کو پہنچ جاتا ہے کہ انسان اپنے بستر سے خوف محسوس کرنے لگتا ہے اور بھرپور کوشش کرتا ہے کہ اسے نیند نہ آئے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جیسے ہی اس کی آنکھ کو نیند بند کرے گی تو کوئی انجانی مخلوق اس کو موت کے دروازہ پر لے جائے گی۔
آدھی رات کو کیا آپ نے خود کو ایسی کیفیت میں پایا ہے کہ جیسے کوئی آپ کے سینہ پر سوار ہے اور آپ کا گلا دبا رہا ہے۔ آپ کو اپنی سانس گھٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ آپ اتنے خوف زدہ ہیں کہ لاکھ کوشش کے باوجود اس چیز کو خود سے دور نہیں کر پا رہے اور اتنے لاچار ہیں کہ پوری کوشش کے باوجود ساتھ سوئے ہوئے انسان کو اپنی مدد کے لیے نہیں پکار پا رہے۔ اسی طرح نیند میں اچانک آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے کمرے میں اکیلے نہیں بلکہ ایسی مخلوق بھی موجود ہے جسے آپ دیکھ نہیں سکتے اور یہ مخلوق آپ کو مار دینا چاہتی ہے۔ یہ احساس اتنا شدید ہوتا ہے کہ آپ کے ہاتھ پاؤں شل ہو جاتے ہیں۔ یہ مخلوق آہستہ آہستہ آپ کی طرف بڑھ رہی ہے اور آپ اپنی پوری توانائی استعمال کرکے بھی اس کو دور نہیں کر پا رہے اور نہ ہی کسی اور شخص کو اپنی مدد کے لیے بلا پا رہے ہیں۔ اس کیفیت سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ آپ کے پاس نہیں ہے۔ ایک خوف ہے، ایک نہ دکھائی دینے والی مخلوق ہے جو آپ کو مار دینا چاہتی ہے۔ پھر اچانک یوں ہوتا ہے کہ آپ کے شل جسم میں ہلکی سی حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ مخلوق کہیں چھپ جاتی ہے اور آپ خوف کی حالت میں بیدار ہو جاتے ہیں۔ آپ کا جسم خوف سے لرز رہا ہوتا ہے۔ آپ کو اپنے جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ آپ کے ساتھ یہ واقعہ ایک دو بار نہیں بلکہ بار بار ہوتا ہے اور آپ اس کیفیت سے اتنے ڈر جاتے ہیں کہ آپ نیند سے بچنے کے لیے ادویات کو استعمال کرنا شروع کرتے ہیں تاکہ آپ اس خوفناک مخلوق سے خود کو دور رکھ سکیں جو سوتے ہی آپ کے بستر کے قریب سے نمودار ہو جاتی ہے۔ انسان کی نیند سکون کی بجائے موت اور خوف کی علامت بن جاتی ہے۔
نیند ہر انسان کے جسم کی ضرورت ہے۔ نیند کے بنا انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں۔ دن بھر کی مصروفیات کے بعد انسان کی سب سے بڑی خواہش ایک پرسکون نیند ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ نیند موت سے بدتر محسوس ہوتی ہے۔ جیسے ہی آنکھ میں نیند کا خمار طاری ہوتا ہے تو کمرے کے کسی کونے سے کوئی مخلوق خود کو ظاہر کر دیتی ہے جو پوری کوشش کرتی ہے کہ آپ کو عارضی نیند نہیں بلکہ ابدی نیند سلا دے۔ اس کیفیت سے دوچار ہونے والا انسان خود سے سوال کرنے لگتا ہے کہ کیا نیند میں کسی بری روح یا مخلوق نے اس پر حملہ کیا تھا۔ کیا میری نیند مجھے ان مخلوقات کے حوالے کر دینا چاہتی ہے تاکہ یہ مخلوقات اسے اذیت دے سکیں۔
انسانی زندگی کے اس خوفناک پہلو کو کئی نام دیئے گئے ہیں۔ خوف کا یہ عنصر نیا نہیں ہے بلکہ صدیوں سے موجود ہے۔ دنیا کے ہر ملک اور عقیدہ میں اس کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اس خوف سے متعلق عجیب داستانیں بیان کی جاتی ہیں کہ کس طرح یہ خوف انسانی زندگی کے ساتھ کھیلتا ہے اور ایک صحت مند خوش شکل انسان کو جسمانی اور ذہنی مریض بنا کر رکھ دیتا ہے اور اسے خوبصورتی سے محروم کر دیتا ہے۔
اس خوف کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب سوتے میں جسم اور دماغ کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے کمرے میں چھپی یہ وحشتناک مخلوقات اسی لمحہ کے انتظار میں رہتی ہیں کہ کب انسان کا نیند میں جسم اور دماغ کا ربط ختم ہو اور ہم اس پر حملہ آور ہو جائیں اور اس کی نیند کے ذریعے اس کی زندگی کو عذاب بنا دیں۔ جدید تحقیق میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ جہاں جاگتے میں بھی ایک لمحہ کے خمار نے اس مخلوق کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور پھر اس انسان پر شدید خوف کا حملہ ہو گیا۔ نیند کے دوران جب یہ حملہ ہوتا ہے تو انسانی دماغ پوری طرح سے بیدار ہوتا ہے لیکن جسم مکمل مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے اور انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کوئی غیر مرئی قوت اسے مار دینا چاہتی ہے۔
دنیا کی مشہور ماڈل گرل کینڈل جینر نے ایک ٹی وی پروگرام ”کیپ اپ وید کارڈیشئینز” میں انٹرویو دیتے ہوئے اپنی زندگی کے سب سے خوفناک پہلو کا ذکر کیا کہ وہ نیند سے خوف زدہ رہتی ہیں اور آدھی رات کو جب میری آنکھ کھلتی ہے تو میں اپنے جسم کو حرکت دینے کے قابل نہیں ہوتی۔ کینڈل جینر کی والدہ نے کہا کہ کینڈل کے لیے یہ عمل نہایت دہشتناک ہے۔ یہ ایک بہت ہی خوفناک کیفیت ہے اور آپ کو یوں لگتا ہے کہ آپ اس خوف سے کبھی باہر نہیں آ پائیں گے۔
قدیم اکادین، سمیرین اور یونانی تہذیب میں نیند میں موت کی اس کیفیت کو ”ناہیما” نامی ایک شہزادی سے منسوب کیا جاتا تھا جو درحقیقت ایک چڑیل تھی۔ دینا کی ہر تہذیب اور عقیدہ اس موت نما نیند کو شیطانی قوتوں سے جوڑتا ہے۔ عرب دنیا میں اسے "جاثوم” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ عرب تہذیب میں جاثوم ایک شیطان یا عفریت ہے جو سوئے ہوئے انسان پر حملہ آور ہوتی ہے اور اس کا گلہ دباتی ہے تاکہ انسان کا سانس رک جائے۔
برصغیر میں نیند کی اس اذیت نما کیفیت کو شیطان،بدروح اور جنات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ شیطانی ارواح نیند میں انسان کا گلہ دباتی ہیں۔ کشمیری روایات کے مطابق یہ عفریت یا سایہ ہر گھر میں ہر وقت موجود ہوتا ہے اور یہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے اور لوگوں پر حملہ کرتا ہے جب گھروں میں مستقل عبادت ترک کر دی جائے یا گھروں میں صفائی کو خاص اہمیت نہ دی جاتی ہو۔
فارسی بولنے والے علاقوں میں اسے "بختک” کہا جاتا ہے۔ بختک ایک شیطان ہے جو سونے والے کے سینہ پر بیٹھ جاتا ہے اور اس کا گلہ دباتا ہے۔
جدید یونان میں اس کیفیت کو جنات سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یونانی لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سوتے میں جب ان پر یہ کیفیت طاری ہوتی ہے تو انھیں اپنے سینے پر بیٹھا ایک ایسا سایہ دکھائی دیتا ہے جو ان کے بولنے کی قوت کو سلب کر لیتا ہے۔ اس دوران انھیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے ان کو پھانسی کے رسہ پر لٹکا دیا ہے۔
جرمن معاشرہ میں نیند میں موت کی حالت پیدا کرنے والی عفریت کو ”ایلپ” کا نام دیا جاتا ہے۔ ایلپ اکثر خواتین پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ایلپ مختلف شکلیں بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اپنی اصلی صورت کے علاوہ یہ بلی،کتا،سانپ،سور اور سفید تتلی بن کر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس کا وزن اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ خواب میں انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی چیز کے وزن سے اس کی پسلیاں ٹوٹ رہی ہیں۔
ملائشیا میں نیند میں حملہ آور ہونے والی اس مخلوق کو ”ہانتو اورنگ میناک” کہا جاتا ہے۔ جب انسان سو رہا ہوتا ہے تو ایک ایسا مرد اس پر حملہ آور ہوتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور اس نے اپنے جسم پر تیل لگا رکھا ہوتا ہے۔ یہ مخلوق اپنے جسم پر تیل اس لیے لگا لیتی ہے کہ اسے کوئی پکڑ نہ سکے۔
چین کی تہذیب میں حضرت عیسی علیہ السلام سے چار سو سال قبل سے ایسی عفریت کا وجود ملتا ہے جو حالت نیند میں انسان کو اپنے قابو میں لے لیتی ہے۔ چین میں لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ایک دن یہی عفریت نیند میں اس طرح حملہ آور ہوتی ہے کہ وہ اپنے شکار کو موت دے دیتی ہے۔
جاپان میں لوگوں کا اس بات پر یقین ہے کہ ”کاناشیباری” ایک ایسی مخلوق ہے جو سوئے ہوئے انسان پر مختلف جسمانی اور ذہنی عذاب لے کر نازل ہوتی ہے۔ جاپان میں اس بات پر عقیدہ ہے کہ اس مخلوق کو جادو کے ذریعے بھی کسی انسان پر مسلط کیا جا سکتا ہے اور یہ عفریت انسان کے سونے کا انتظار کرتی رہتی ہے۔ سانس گھٹنے کے ساتھ عجیب و غریب آوازوں کا آنا اور جسم میں درد کا احساس اس مخلوق کے حملہ کی نشاندہی کرتی ہے۔
ہندو مذہب میں ”رکشاسا” کو ایک ایسی عفریت تصور کیا جاتا ہے جو کہ سوئے انسان کو ضرر پہچانا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ ”موہنی” نامی ایک عفریت کا نام بھی اسی موضوع پر لیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موہنی ایک نہایت خوبصورت عورت ہے جو رات کے وقت سوئے ہوئے مردوں کو اپنے قبضہ لینا چاہتی ہے تاکہ ان سے وہ اپنی اولاد پیدا کر سکے۔
دنیا میں ہر مذہب اور عقیدہ میں ایسی کئی مخلوقات کا ذکر موجود ہے جو انسان کو اس کی نیند میں یا تو موت دیتی ہیں یا پھر سوئے ہوئے مرد یا عورت کو اپنے شیطانی مقاصد کے لیے قابو کرنا چاہتے ہیں۔ مختلف ادوار میں مصور نگاروں اور فلم بنانے والوں کو بھی اس موضوع نے بہت متاثر کیا۔ مصوری کے کئی فن پاروں میں اس کیفت کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اسی طرح بہت ساری فلموں میں اس موضوع کو پیش کیا گیا ہے۔ مشہور زمانہ فلم ”اے نائٹ میر آن ایلم اسٹریٹ” اسی موضوع پر بنی فلموں کا ایک سلسلہ ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کچھ لوگ اس بات کا دعوی بھی کرتے ہیں کہ نیند میں ان کو کوئی خلائی مخلوق اٹھا کر لے گئی۔ خلائی مخلوق کے ہاتھوں اغوا ہونے والے اکثر لوگ جس کیفیت کو بیان کرتے ہیں اس کا تعلق نیند میں خوفناک مخلوق کے حملہ سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس موضوع پر ”ایکس فائلز” نامی ٹی وی سیزیز اور فلم کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔
جیسا کہ پہلے تحریر کیا گیا ہے کہ اس کیفیت کو مختلف ملکوں اور عقائد میں مخلتف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ جدید طب میں اسے نیند کا فالج یا ”سلیپ پیرالیسز” کا نام دیا گیا ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا فرد ضرور موجود ہوتا ہے جو نیند کے فالج کے زیر اثر ہوتا ہے۔ اکثر گھر والے اس معاملہ کو صرف اتنی ہی توجہ دیتے ہیں کہ سوتے میں ڈر جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کیفیت سے دوچار انسان اپنے گھر والوں سے اس مسئلہ کو چھپاتا ہے اور خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار کر لیتا ہے۔
اس مسئلہ پر تحقیق کرنے والے دو الگ الگ نظریات رکھتے ہیں۔ ایک گروہ کا یہ ماننا ہے کہ نیند میں اس طرح کی کیفیت کا پیدا ہونا دراصل انسان کی کسی ایسی خواہش کا ادھورا رہ جانا ہے جسے وہ ہر حال میں مکمل دیکھنا چاہتا ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ نیند میں اس کیفیت کا تعلق انسان پر پڑنے والے ذہنی دباو اور پریشانیوں سے ہے۔
طب میں اس کی جو وجوہات بیان کی جاتی ہیں ان کے مطابق نیند میں حملہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب سونے والا نیند میں داخل ہوتے وقت یا نیند سے باہر آتے وقت آنکھوں کی حرکت سے محروم ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے نزدیک یہ وقت اس کیفیت کو پیدا کرنے کا سب سے بڑا عنصر ہوتا ہے۔ اس وقت انسان کا ذہن اور جسم ایک دوسرے سے رابطہ کھو بیٹھتے ہیں اور خوابیدہ انسان کو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے کسی جن بھوت نے اس پر حملہ کر دیا ہے۔
کئی لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا نیند کا فالج موت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس موضوع پر بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ کے نزدیک نیند کافالج صرف جسم کو وقتی طور پر بےحرکت کر دیتا ہے اور موت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ دوسری رائے کے مطابق نیند کا فالج موت کا سبب بن سکتا ہے اور اس کے لیے وہ انسانی تاریخ سے کچھ واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ ”مونگ” قبیلہ کا ہے۔ یہ لوگ چین،ویت نام،لاوس اور تھائی لینڈ میں پائے جاتے ہیں۔ انیس سو اسی 1980 کی دہائی میں اس قبیلہ کے کچھ لوگ امریکہ آ کر آباد ہوئے۔ امریکی حکومت نے انہیں ایک پناہ گزین کیمپ میں جگہ دی۔ ان میں کل 117 مرد تھے جن میں سے 116 صحت مند انسان تھے جبکہ ایک کچھ بیمار تھا۔ ایک ایک کر کے ان 116 افراد کی موت ہو گئی۔ ان کی عمریں30 سے 33 سال کے درمیان تھیں۔ ان سب 116 مردوں کی موت نیند کے دوران ہوئی۔ کوئی ایسی قوت تھی جو ان کے سونے کا انتظار کرتی رہتی تھی اور جیسے ہی نیند ان پر طاری ہوتی یہ قوت ان کو موت کی وادی میں دھکیل دیتی۔ ان مرنے والی کی موت کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو ان اموات کی تحقیق کے لیے بیھجا گیا۔ لیکن ڈاکٹروں کو کوئی طبی وجہ سمجھ نہیں آئی لہذا انھوں نے یہ رائے دی کہ ان تمام افراد کی موت کا سبب اچانک ایسے ناقابل فہم حالات کا پیدا ہو جانا ہے جنھوں نے ان کو نیند میں موت دے دی۔
اس پر جب مزید تحقیق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ مرنے والے تمام مونگ افراد روحوں پر ایمان کی وجہ سے مرے۔ مونگ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی فرد یا گروہ اپنی عبادات ترک کر دیتا ہے اور قربانی نہیں دیتا تو پھر وہ روحیں جو اس انسان کی حفاظت کرتی ہیں وہ خود کو اس انسان سے دور کر لیتی ہیں جس کے نتیجہ میں نیند کے دوران کچھ ایسی ارواح اس انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں جو ان کے جسم اور روح پر اپنا قبضہ چاہتی ہیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کو موت آ جائے لہذا اپنے تلسط کے لیے کہ یہ ارواح سوئے ہوئے انسان کو موت دے دیتی ہیں۔
نیند میں فالج کا حملہ ہونے کی طبی اور روحانی دونوں وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس کیفیت سے گذرنے والے کی جسمانی اور روحانی صحت کے متعلق آگاہی ہو۔ اگر جسمانی علاج سے یہ مرض دور ہوجاتا ہے تو اچھی بات ہے لیکن اگر یہ کیفیت برقرار رہتی ہے تو پھر اس کا روحانی علاج ضروری ہے۔
اسلامی کتب میں ہمیں نبی کریم صل اللہ عیلہ و آلہ وسلم کی ایسی کئی دعائیں ملتی ہیں جو رات کو سوتے وقت اپنے تحفظ کے لیے پڑھنی چاہییں۔
یہ حقیقت بھی اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاروں کا بھی انسان کی جسمانی اور روحانی صحت کے ساتھ تعلق ہے۔ لہذا اس بات کو لازمی مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ کیا کسی سیارہ کے اثرات کی وجہ سے تو نیند میں ایسے حالات پیدا نہیں ہو رہے۔
ابن المنصور کتاب لسان العرب میں لکھتے ہیں کہ جاثوم ایک ایسا برا خواب ہے جو رات کو سونے والے پر آتا ہے۔ جو مخلوق اس برے خواب کو سوئے ہوئے انسان پر طاری کرتی ہے اس کا نام جاثوم ہے۔
ابن سینا اپنی مشہور زمانہ کتاب المیزان میں لکھتےہیں کہ ”اس کو گلہ گھونٹنے والا کہا جاتا ہے اور عربی زبان میں اسے جاثوم اور النیدلان کہتے ہیں”۔
ہمارے معاشرے میں اکثر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کوئی بھی دوسری مخلوق انسان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیان کردہ وہ دعائیں جو نہ دکھائی دینے والی مخلوقات کے شر سے متعلق ہیں ان کے بارے میں کیا کہا جائے گا۔ سورہ الفلق میں ارشاد رب العزت ہے کہ ”(میں پناہ مانگتا ہوں) رات کی تاریکی کی برائی سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے”۔ یہ آیت اس بات کو واضح کر رہی ہے رات کو نیند کے ساتھ اس تاریکی میں کچھ ایسے نہ دکھائی دینے والے برے اثرات ہیں جن سے ہم ناواقف ہیں۔
صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں جبکہ برے خواب شیطان کی طرف سے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ نیند
میں فالج کا تعلق ہمیشہ برے خواب سے ہوتا ہے لہذا اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نیند میں برے خواب کی وجہ سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ شیطانی قوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اس عفریت سے مکمل تخفظ اور پرسکون زندگی کے لیے ہم یہاں ایک عظیم الشان طلسم پیش کر رہے ہیں۔ اس کے اثرات کے بارے میں لکھنا اہل قلم کے بس میں نہیں۔ جو حضرات علم طلسم و تعویذات کا علم یا دلچسپی رکھتے ہیں وہ اس طلسم کو ایک نظر دیکھ کر ہی اس کی عظمت کے قائل ہو جائیں گے۔
اگر آپ اس کو بطور نقش بنانا چاہتے ہیں تو پھر اسے ہرن کی جھلی پر بنائیں ورنہ چاندی پر یہ طلسم کندہ کیا جائے گا۔ یہ طلسم شرف شمس میں تیار کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ ہر ماہ ہونے والے شرف قمر میں بھی اس کو بنایا جا سکتا ہے۔
اب اس طلسم کی تیاری کے تمام مراحل پیش کیے جا رہے ہیں کہ کوئی بھی ضرورت مند اسے بآسانی بنا سکے۔ سب سے پہلے اس طلسم کے اضلاع تیار کئے جائیں گے۔ ان اضلاع کا پہلا جز "انہ من سلیمان و انہ "کی عبارت سے قائم ہوگا جب کہ اضلاع کا دوسرا جز بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ہوگا۔
اس طلسم میں نقش زوج کو چار مرتبہ دہرایا گیا ہے۔ ان تمام کے اضلاع سورہ اخلاص سے تیار کئے جائیں گے۔ اس کے بعد چاروں ملائیکہ مقربین ترتیب سے لکھے جائیں گے۔ پہلے جبرائیل دوسرا میکائیل تیسرا اسرافیل اور چوتھا عزرائیل ہو گا۔
اس کے بعد قرآن کریم آیات مبارکہ کو چار کونوں پر لکھا جائے گا۔ پہلی آیت طلسم کے اوپر درمیان میں لکھی جائے گی۔ دوسری آیت دائیں جانب تیسری آیت بائیں جانب اور چوتھی آیت نقش کے نیچے تحریر ہو گی۔
اس طلسم میں جن آیات قرآنی کی روحانی قوت کو استعمال کیا گیا ہے وہ یہاں پیش کی جا رہی ہیں:
طلسم کے اوپر سورہ الفرقان کی آیت 23 لکھی جائے گی :
دائیں جانب سورہ الاسراء کی آیت 81 لکھیں:
بائیں جانب سورہ یونس کی آیت 81 آئے گی:
طلسم کے نیچے سورہ الانبیاء کی آیت 18 تحریر کریں:
طلسم کے چار جز ہیں اور ہر جز میں چار انبیاء کے اسمائے مبارک استعمال کیے گئے ہیں۔ انبیاء علیھماالسلام کے اسماء یہ ہیں:
محمد صل اللہ علیہ و آلہ وسلم، الیاس علیہ السلام، یونس علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، ایوب علیہ السلام،
زکریا علیہ السلام، سلیمان ابن داؤد علیہ السلام، موسی علیہ السلام، الیوشع علیہ السلام، لوط علیہ السلام، اسمعیل علیہ السلام،
ابراھیم علیہ السلام، اسحق علیہ السلام، ھارون علیہ السلام اور نوح علیہ السلام۔
یہ تمام اسمائے مبارکہ ایک خاص ترتیب سے لکھے جائیں گے۔ پہلے حصہ میں سب سے پہلے نوح علیہ السلام کا نام لکھیں پھر ھارون علیہ السلام کا، اس کے بعد اسحق علیہ السلام اور پھر ابراھیم علیہ السلام کا۔
اسی طرح دوسرے حصہ میں پہلے اسمعیل علیہ السلام کا نام تحریر کریں پھر لوط علیہ السلام اس کے بعد الیوشع علیہ السلام اورآخر میں موسیٰ علیہ السلام۔
تیسرے حصہ میں ناموں کی ترتیب یوں ہو گی کہ سلیمان ابن داؤد علیہ السلام کے بعد زکریا علیہ السلام پھر ایوب علیہ السلام اور آخر میں یعقوب علیہ السلام۔
اسی طرح چوتھے حصہ میں سب سے پہلے محمد صل علیہ و آلہ وسلم کے نام مبارک کے بعد یوسف علیہ السلام پھر یونس علیہ السلام اور آخر میں الیاس علیہ السلام کا نام آئے گا۔
طلسم تیار کرنے بعد اسے لوبان کی دھونی دیں اور اپنے گلے میں پہن لیں۔
مناسب ہے کہ طلسم پہننے سے قبل اسے موم جامہ کرلیں۔ اگر ہرن کی جھلی پر تیار کیا گیا ہے تو اسے بھی اچھی طرح محفوظ کرلیں کہ پانی وغیرہ سے محفوظ رہے۔ مارکیٹ میں کئی ایسی چیزیں دستیاب ہیں جن سے بآسانی کسی لوح یا نقش کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
اگر اس کیفیت کا حملہ شدید ہو تو روزانہ رات سونے سے قبل آیت الکرسی 9 مرتبہ ورد کرکے دم کرکے سویا کریں۔ آیت الکرسی
حفظ نہ ہونے کی صورت میں اسے موبائل پر لگا کر نو مرتبہ سن کر خود پر دم کر لیں۔
مکمل طلسم آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔