خواص اسمائے الہی

اسم اعظم ۹۔ سورہ فاتحہ اسم اعظم

سورۂ فاتحہ اور اسمِ اعظم — علما و مشائخ کے اقوال اور مجرب اعمال

اس سے قبل ہم اسمِ اعظم کے سلسلے میں آٹھ اقساط پیش کر چکے ہیں۔ اب اس تحریر میں احادیث و بزرگانِ دین کے اقوال کی روشنی میں سورۂ فاتحہ کے بارے میں وہ نقطہ ہائے نظر بیان کیے جا رہے ہیں جن کے مطابق بعض مشائخ کے نزدیک سورۂ فاتحہ اسمِ اعظم ہے۔ ذیل میں علما، مفسرین اور صوفیہ کے تفصیلی ارشادات و واقعات ترتیب کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ فجر کی نماز اور سورہ فاتحہ کا مجموعہ ایک روح پرور تجربہ ہے جس سے نہ صرف قلبی سکون ملتا ہے بلکہ شفاء اور برکت کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔

1. سورۂ فاتحہ اور اسمِ اعظم کی نسبت

بعض مشائخ کا قول ہے کہ سورۂ فاتحہ درحقیقت اسمِ اعظم ہے۔
مولانا قطب الدین صاحب نے مشکوٰۃ شریف کی شرح "مظاہرِ حق جلد دوم، کتاب فضائل القرآن” میں تحریر کیا ہے:

"مشائخ کے اعمالِ مجربہ میں مذکور ہے کہ سورۂ فاتحہ اسمِ اعظم ہے۔ ہر مطلوب کے لیے اسے پڑھنا چاہیے۔”

2. سورۂ فاتحہ کے فضائل اور علما کے ارشادات

2.1 قولِ علامہ ابن حربیؒ

"علامہ ابن حربیؒ فرماتے ہیں کہ مغرب کے فرض اور سنت کے بعد اسی جگہ (یعنی مسجد میں) چالیس مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھی جائے۔ اس کے بعد اٹھنے سے قبل اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے گا، ملے گا۔”

2.2 مجموعی فضائل

  • سورۂ فاتحہ قرآنِ مجید کی سب سے افضل، بہتر، بزرگ اور برتر سورہ ہے۔
  • اسے اللہ تعالیٰ نے "سبع مثانی” اور "قرآنِ عظیم” کے معزز القاب سے ملقب فرمایا۔
  • یہ عرش کے خزانوں میں سے ایک خاص تحفہ ہے، جو صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوا۔
  • چاروں آسمانی کتب (تورات، زبور، انجیل، قرآن) میں اس جیسی کوئی سورہ نازل نہیں ہوئی۔
  • اس کے نزول کے وقت اسی ہزار فرشتے اس کی ہمرکابی میں آئے۔

3. احادیثِ مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کا مقام

3.1 حدیثِ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ

امام بخاری، مسلم، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا مگر انہوں نے نماز کی وجہ سے جواب نہ دیا۔ نماز سے فارغ ہو کر حاضر ہوئے اور عذر پیش کیا تو آپؐ نے فرمایا:

"کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا:
استجیبوا للہ وللرسول اذا دعاکم (سورہ انفال)

یعنی اللہ اور رسول کو جواب دو جب وہ تم کو پکاریں۔”

پھر ارشاد فرمایا:

"کیا میں تم کو مسجد سے باہر جانے سے پہلے ایک ایسی سورہ نہ سکھلاؤں جو قرآن میں سب سے زیادہ عظمت والی ہو؟"

آپؐ نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا، کچھ باتیں ہوئیں، پھر جب باہر جانے لگے تو حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے یاد کروایا۔ تب آپؐ نے فرمایا:

"وہ سورہ ‘سورۂ الحمد’ ہے۔ وہی سبع مثانی اور قرآنِ عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔"

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں سورۂ فاتحہ کو سب سے زیادہ عظمت اور بزرگی حاصل ہے۔

3.2 تفسیرِ اتقان میں جلال الدین سیوطیؒ کا حوالہ

جلال الدین سیوطیؒ نے "تفسیرِ اتقان” میں ابن التین کے حوالے سے فرمایا کہ اس سورہ کا ثواب دیگر سورتوں سے بہت عظیم ہے۔ بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ میں قرآن کے تمام مقاصد اجمالاً جمع ہیں، اسی لیے اس کا نام "امّ القرآن” رکھا گیا ہے۔

3.3 امام بیہقیؒ کی روایت

امام بیہقیؒ نے "شعب الایمان” میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ

"جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید میں سب سے بہتر سورہ الحمد ہے۔"

3.4 امام احمد بن حنبلؒ کی روایت

امام احمد نے حضرت عبداللہ بن جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"اے عبداللہ بن جابر! سنو، تمام قرآن مجید میں سب سے بہتر سورہ الحمد للہ رب العالمین ہے۔"

4. سورۂ فاتحہ اور پورے قرآن کا خلاصہ

  • سلف صالحین کے مطابق سورۂ فاتحہ نے پورے قرآن کے مقاصد کو اجمالاً اپنے اندر سمو لیا ہے۔ باقی قرآن اس کی تفصیل و تشریح ہے۔
  • ایک حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولین و آخرین کے علوم کو چار کتابوں میں جمع فرمایا۔ پھر ان تمام کتابوں کے علوم قرآن میں رکھے، قرآن کے علوم سورۂ فاتحہ میں اور سورۂ فاتحہ کے علوم "بسم اللہ الرحمن الرحیم” میں۔
  • حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور فرمان ہے، جسے صاحبِ کتاب "خزینۃ الجواہر” نے ص 436 و 574 پر نقل کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"تمام آسمانی کتابوں کا علم قرآن مجید میں ہے، اور تمام قرآن کا علم سورۂ فاتحہ میں ہے۔ سورۂ فاتحہ کا علم بسم اللہ میں ہے، اور بسم اللہ کا علم اس کے ‘باء’ میں ہے، اور ‘باء’ کا علم اس کے نیچے والے نقطہ میں ہے، اور میں (علی) وہی نقطہ ہوں۔"

4.1 سورۂ فاتحہ کی قرآنی سورتوں پر سبقت

صاحبِ خزینۃ الجواہر نے اس فرمان کے ذیل میں ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ سورۂ فاتحہ کے پاس باقی سورتوں کے ساتھ اجمال اور تفصیل کی نسبت ہے؛ یعنی باقی قرآن میں جو کچھ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، سورۂ فاتحہ میں وہ اجمالاً موجود ہے۔ اسی لیے اس کا قرآن کی پہلی سورت ہونا موزوں اور منطقی ہے۔

5. سورۂ فاتحہ اور شفاءِ امراض

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ یہ سورۂ حمد، موت کے سوا ہر بیماری کی شفا ہے۔ مزید براں:

  1. حضرت امام جعفر صادقؒ فرماتے ہیں:

    "جسے سورۂ الحمد شفا نہیں دے سکتی، اسے کوئی چیز شفا نہیں دے سکتی۔”

  2. بعض روایات میں ہے:

    "کسی درد والے مقام پر اگر ستر مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھی جائے تو درد ضرور ختم ہو جاتا ہے۔”

  3. ایک اور روایت میں ہے:

    "پانی کے پیالے پر چالیس مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر مریض پر چھڑکا جائے تو شفا حاصل ہوگی۔”

6. تفصیلی اجمال: سورۂ فاتحہ کیسے پورے قرآن کا خلاصہ ہے؟

سورۂ فاتحہ کی ہر آیت میں قرآن کے ایک بنیادی مقصد کا اجمال پایا جاتا ہے۔ مثلاً:

  • الحمد: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی جتنی تمجید، تسبیح، تکبیر، تہلیل اور شکر کا بیان ہے، وہ سب "الحمد” میں اجمالاً جمع ہے۔
  • رب العالمین: دنیا و آخرت سمیت سب عوالم کا ذکر لفظ "العالمین” میں سمو دیا گیا۔
  • الرحمن الرحیم: اس میں اللہ تعالیٰ کی وسعتِ رحمت، رزق، احسان، مغفرت اور اکرام کا اجمال ہے۔
  • مالک یوم الدین: قیامت کے احوال، جزا و سزا، بہشت و دوزخ اور حساب کتاب کے تمام تر تذکرے اس لفظ میں سمائے ہوئے ہیں۔
  • ایاک نعبد و ایاک نستعین: قرآن مجید میں عبادت کی تمام صورتیں اور اللہ سے مدد مانگنے کی تمام شکلیں اس آیت میں یکجا ہیں۔
  • اھدنا الصراط المستقیم: قرآن میں جہاں کہیں دعا، استغاثہ، ہدایت اور ارشاد کے بیان ہیں، وہ سب اس آیت میں مضمر ہیں۔
  • صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضالین: نیک لوگوں کے انعامات، یہودیوں اور گمراہ قوموں پر عذاب، غرض خیر و شر کے تمام نمونے اس آخری آیت میں جمع ہیں۔

7. سورۂ فاتحہ کے اسماء اور وجوہِ تسمیہ

  1. الفاتحہ: قرآن کی پہلی سورت ہونے کی وجہ سے۔
  2. امُّ الکتاب یا الاساس: یہ سورت پورے قرآن کی اصل اور بنیاد ہے۔
  3. الشفاء: بکثرت احادیث اور اقوال میں اس سورت کو شفاء قرار دیا گیا ہے۔
  4. السبع المثانی: اس کی سات آیات اور بعض روایات کے مطابق دو بار نزول یا نماز میں دو بار پڑھنے کی نسبت سے۔
  5. الحمد: اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد موجود ہے۔
  6. الوافیہ: ہر نماز، خواہ فرض ہو یا سنت، اس کا مکمل پڑھنا ضروری ہے۔
  7. الکافیہ: نماز میں تنہا پڑھنے سے بھی کفایت ہو جاتی ہے۔
  8. الصلوٰۃ: اس کے بغیر نماز ہی ناقص رہتی ہے ("لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب”)۔

سببِ تسمیہ "المثانی” کے چند پہلو

  • ہر نماز میں دو مرتبہ تلاوت کی جاتی ہے (سنت اور فرض یا ایک رکعت سے دوسری رکعت)، اس لیے مثانی کہلائی۔
  • اس کے دو نزول بیان ہوئے: ایک مکہ میں، دوسرا مدینہ میں۔
  • اس میں حمد و ثناء بھی ہے اور بندے کی دعا و مناجات بھی۔

8. چند مجرّب اعمال سورۂ فاتحہ سے

8.1 روزانہ 41 مرتبہ ورد

جو کوئی دینی یا دنیاوی حاجت کے لیے روزانہ اکتالیس مرتبہ اس سورہ کو پڑھے، حیرت انگیز نتائج حاصل ہوں گے۔

8.2 سورۂ یٰس شریف کے ساتھ عمل

  • سورہ یٰس پڑھیں اور ہر مبین پر پہنچ کر سات مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھیں۔ سورہ یٰس میں کل سات مبین ہیں، اس طرح کل سورۂ فاتحہ 49 مرتبہ پڑھی جائے گی۔
  • عمل کے اختتام پر اپنی حاجت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں۔

8.3 فجر کی سنت اور فرض کے درمیان ورد

سنتِ فجر اور فرض نمازِ فجر کے درمیان سورۂ فاتحہ کے متعدد مجرّب طریقے معروف ہیں:

  1. بسم اللہ کی میم اور ‘الحمد’ کے لام کو ملانے کا عمل
    • 41 مرتبہ (چالیس دن تک) اس طرح پڑھیں کہ "بسم اللہ الرحمن الرحیم” کی میم کو "الحمد” کے لام کے ساتھ ملائیں۔
    • مریض کے لیے یہ پانی پر دم کر کے پلانا بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ سخت سے سخت جادو یا بیماری زائل ہوتی ہے۔
  2. نوچندی اتوار کا عمل
    • سنتِ فجر اور فرض کے درمیان ستر مرتبہ اسی انداز سے بسم اللہ کی میم اور الحمد کے لام کو ملاتے ہوئے سورۂ فاتحہ پڑھیں۔
    • پھر روزانہ اسی وقت پڑھتے رہیں اور روزانہ دس مرتبہ کم کرتے جائیں تاکہ سات دن میں یہ عمل ختم ہو جائے۔
    • اگر پہلے مہینے میں مطلوبہ مقصد حاصل نہ ہو تو دوسرے یا تیسرے مہینے میں بھی دہرا سکتے ہیں۔
  3. قولِ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ
    • آپؒ کے والدِ مرشد فرمایا کرتے تھے کہ کسی بھی حاجت، مسافر کی سلامتی، مریض کی شفایابی یا دیگر ضروریات کے لیے سنتِ فجر اور فرضِ فجر کے درمیان 41 بار سورۂ فاتحہ پڑھا کریں۔
    • ہر قسم کی حاجت اس عمل کی برکت سے پوری ہوتی ہے۔

8.4 فوائدِ عام

حضرت شاہ ولی اللہؒ کی بیان کردہ روایات کے مطابق اگر کوئی شخص 41 مرتبہ سورۂ فاتحہ کو نماز فجر کی سنت و فرض کے درمیان پڑھنے کا معمول بنائے تو:

  • محتاجی دُور ہو کر غنا نصیب ہوتا ہے۔
  • قرض کی ادائیگی کے اسباب بن جاتے ہیں۔
  • بیماریوں سے شفا حاصل ہوتی ہے اور کمزور انسان طاقت پکڑتا ہے۔
  • اگر روزگار کے مسائل ہیں یا اولاد کا نہ ہونا جیسے معاملے درپیش ہوں تو اللہ تعالیٰ کرم فرماتا ہے۔

9. عمومی سوالات (FAQ)

سوال 1: کیا سورۂ فاتحہ کا ورد کرنے سے اسمِ اعظم کے فیوض حاصل ہو سکتے ہیں؟
جواب: جی ہاں، بعض مشائخ کے نزدیک سورۂ فاتحہ کو اسمِ اعظم ہی سمجھا گیا ہے۔ اس لیے اس کا ورد کرنے سے وہی فیوض و برکات حاصل ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے جو اسمِ اعظم کی قراءت سے وابستہ ہیں۔

سوال 2: کیا سورۂ فاتحہ پڑھنے سے واقعی بیماریوں اور جادو سے شفا ملتی ہے؟
جواب: متعدد احادیث اور بزرگانِ دین کے مجرب اعمال سے ثابت ہے کہ سورۂ فاتحہ کو موت کے سوا ہر مرض کی شفاء قرار دیا گیا ہے۔ پانی پر دم کرکے پلانے یا درد والے مقام پر پڑھنے کے عمل سے صحت یابی کے واقعات کتبِ سیر اور تجرباتِ مشائخ میں منقول ہیں۔

سوال 3: کیا سورۂ فاتحہ کا کوئی مخصوص وقتِ ورد بھی ہے؟
جواب: اگرچہ کوئی سخت پابندی نہیں، لیکن بہت سے مشائخ نے فجر کی سنت و فرض کے درمیان پڑھنے کو مؤثر قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں مغرب کے بعد چالیس مرتبہ پڑھنے کا مجرب طریقہ بھی منقول ہے۔ اپنے حالات اور فرصت کے مطابق دیگر اوقات میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔

سوال 4: بسم اللہ کی میم اور ‘الحمد’ کے لام کو ملانے کا مقصد کیا ہے؟
جواب: یہ بزرگوں کا ایک مخصوص طریقہ ہے جسے روحانی نقطۂ نظر سے مؤثر پایا گیا ہے۔ اس میں عربی الفاظ کا اتصال ایک خاص صوتی اثر پیدا کرتا ہے جسے کچھ مشائخ نے جادو اور بیماری دور کرنے میں اکسیر قرار دیا ہے۔

سوال 5: کیا سورۂ فاتحہ کے عمل میں کوئی پرہیز بھی لازم ہے؟
جواب: عمومی طور پر تمام اعمال میں طہارتِ جسم و لباس، حلال خوراک اور نیک نیتی بنیادی شرط ہے۔ اگرچہ بعض عملیات میں مزید پرہیزات بھی ملتے ہیں، لیکن سب سے اہم شرعی احکام کی پابندی اور رزقِ حلال کا اہتمام ہے۔


10. حاصل کلام

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سورۂ فاتحہ کو اپنے اجمال میں مکمل قرآن کا نچوڑ کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بعض مشائخ نے اسمِ اعظم کا درجہ دیا۔ اس کی عظمت اور شان بکثرت احادیث اور صوفیانہ تجربات سے ثابت ہے۔
انشاء اللہ آئندہ ماہ ہم سورۂ فاتحہ کے وہ اعمال تفصیل سے بیان کریں گے جو احقر کے ذاتی تجربہ میں بھی رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کلامِ الٰہی سے محبت اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

author avatar
Roohani Aloom
روحانی علوم ڈاٹ کام ایک ادارہ ہے جس نے دنیا میں پہلی بار سنہ 2004ء سے انٹرنیٹ پر اردو زبان میں علوم روحانی کی ترویج کا سلسلہ جاری کیا اور اس جدید دور میں اسلاف کے علوم کو جدید طرز پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔

Roohani Aloom

روحانی علوم ڈاٹ کام ایک ادارہ ہے جس نے دنیا میں پہلی بار سنہ 2004ء سے انٹرنیٹ پر اردو زبان میں علوم روحانی کی ترویج کا سلسلہ جاری کیا اور اس جدید دور میں اسلاف کے علوم کو جدید طرز پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close

ایڈ بلاک کا استعمال پایا گی

محترم قارئین، ہماری یہ ویب سائٹ ایک خدمت کے جذبے کے تحت آپ کے لیے مخفی و روحانی علوم کے مضامین بالکل مفت فراہم کر رہی ہے۔ ہمارا مقصد اس علم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے، اور اس کے بدلے ہم آپ سے کسی قسم کی مالی مدد نہیں لیتے۔ البتہ، ہماری اس کوشش کو جاری رکھنے کے لیے اشتہارات کا سہارا لینا ضروری ہے، تاکہ ہم اس پلیٹ فارم کو برقرار رکھ سکیں اور آپ تک بہترین مواد پہنچاتے رہیں۔ آپ سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ ہماری ویب سائٹ پر ایڈ بلاکر کو عارضی طور پر غیر فعال کر دیں۔ یہ ایک چھوٹا سا تعاون ہوگا، لیکن ہمارے لیے بہت بڑی مدد ثابت ہوگا۔ جزاک اللہ خیراً