اسم ذات اللہ
اسرار اسم ذات اللہ
اپنے سابقہ مضامین میں "اسم اعظم:”کے تحت مختلف حکایات، روایات ۔ احادیث ۔ اقوال بزرگان دین آپ کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں ۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ موضوع ابھی تشنہ طلب ہے ۔ مزید کچھ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا خواہاں ہوں ۔ صدیوں سے علماء اور عارفین کتہے آرہے ہیں کہ اسم اعظم اللہ یعنی اسم ذات ہے لیکن اس کی شرح کسی جگہ مکمل طور سے ظاہر نہیں کی گئی ہے ۔
جو حضرات اس ریاضت سے فیض حاصل کرنا چاہیں ان کے لئے مندرجہ ذیل شرائط پر عمل پیرا ہونا لازم ہے ۔
۱۔ اسم اعظم کا ذکر و شغل صرف وہی مرد و عورت کر سکتے ہیں جو ہر مذہب کے بزرگوں اور بزرگانہ تعلیم کی عزت و عظمت کو دل سے مانیں۔
کیونکہ اسم اعظم کی صفاتی تجلیاں ذاک و شاغل کے باطن میں پوری طرح نمودار نہییں ہونگی جبکہ اس کے دل میں نفرت۔ تعصب کے حجابات حائل ہوں لہٰذا اسلام سے پہلے کی روحانی تعلیمات کو برا بھلا نہ کہیں۔
۲۔دوسری شرط یہ ہے کہ ذاکر مرد اور عورت اپنی روح کے جوہر یعنی نسلی مادہ کو زیادہ نہ خرچ کریں کیونکہ اس مادہ کے محفوظ رکھنے سے انسانی جسم کی وہ طاقتیں محفوظ رہتی ہیں جن سے ذات و صفات کی تجلیوں اور جلوؤں کے ظہور کے لئے ازبس ضروری ہیں ۔ ایسی تحریریں نہ پڑھیں جن سے نفسانی خواہشات کے غالب آنے کا خدشہ لاحق ہو۔
۳۔ تیسری شرط یہ ہے کہ صدق مقال اور اکل حلال کا خیال رکھیں جھوٹ نہ بولیں اپنی روزی محنت سے حاصل کریں ۔
۴۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ سادہ ہلکی جلدی ہضم ہونے والی غذا کھایا کریں اگر آپ مسلمان ہیں تو سب قسم کے حلال گوشت کھا سکتے ہیں ۔ مرغی انڈا ، گائے کا گوشت ، مچھلی کھانے کی مخالفت نہیں ہے لیکن اگر رات کے وقت مغرب یا عشاء کے بعد اسم اعظم کا ورد اور شغل کرنا ہے تو رات کے کھانے میں زیادہ ثقیل غذائیں نہ کھائیں اگر تہجد یا صبح کے وقت ذکر کرنا ہو تو سب غذائیں استعمال کر سکتے ہیں حاصل کلام یہ ہے کہ ذکر و شغل اسم اعظم کے وقت معدے کا خالی اور ہلکا ہونا ضروری ہے ۔
۵۔ پانچویں شرط یہ ہے کہ شغل و ذکر کے وقت احرامی لباس پہنیں جو خدا کو بہت پیارا ہے ۔
۶۔ چھٹی شرط یہ ہےہ کہ نیند یا بھوک کی خلل اندازی نہ ہو یعنی سخت بھوک اور نینک کی حالت طاری تو اسم اعظم نہ پڑھیں ۔
مذکورہ بالا شرائط کی پابندی نہ ہوگی تو یقینا ً اسم اعظم کے ذاتی و صفاتی ذکر و شغل سے کیفیات و تجلیلات پیدا نہیں ہوں گی ۔
نقش کعبہ :ذاکر اسم اعظم نقش کعبہ اپنے سامنے رکھیں تاکہ تصور و خیالات میں یکسوئی پیدا ہو کیونکہ باطنی کمالات حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑی اور بنیادی چیز رف توجہ اور تصور کی یکسوئی ہے نقش کعبہ کاغذ یا کپڑے پر بنا ہو جو ۳۰ انچ لمبا اور ۲۰ انچ چوڑا ہو اس کے اوپر یہ آیت لکھیں” فاینما تولو فثم وجھ اللہ ” (سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۱۵)۔ بعدہ جلی قلم سے اللہ لکھیں نیچے کعبہ شریف کا نقش ہو جس کے پہلو میں درج ذیل آیات قرآنی لکھی گئی ہوں ۔ فول وجھک شطر المسجد الحرام (سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۴۴)۔ اور "ان اول بیت وضع للناس للذی ببکتہ(سورہ آل عمران آیت نمبر ۹۶)۔ اور حیث ما کنتم فوتو وجوھکم شطرہ (سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۴۴)۔
اسے اپنے سامنے لٹکائیں۔
اسم اعظم تلاوت کرنے کی خاص ترکیب :۔ نقش کعبہ کے سامنے دوزانوبیٹھ کر آنکھیں بند کر کے ایک تسبیح یعنی ۱۰۱ بار لا الہ الا اللہ ۔۔۔ زبان ہلائے بغیر دل ہی دل میں آنکھیں بند کر کے سانس کو سنبھال کر پڑھیں اس کا نام ذکر خفی یا شغل باطن ہے ۔
۲۔اب آنکھیں کھول دیں نقش کعبہ کے اسم "اللہ ” پر نظریں جما کر دھیمی آواز سے ۱۰۱ بار یعنی ایک تسبیح لا الہ الا اللہ پڑھیں اسے ذکر جلی کہتے ہیں ۔
۳۔اب آنکھیں بند کرلیں ۔ اسم ذات کا تصور جما کر ایک تسبیح پڑھیں لا الہ الا انت "انت” کہتے وقت یہ تصور ہو کہ انت یعنی "تو ہی ہے ” یعنی اسم اعظم اللہ ہے ۔ یہ تسبیح بھی دل ہی میں زبان بند کرکے پڑھیں ۔
۴۔ اب چوتھی دفعہ لا الہ الا انت ۔ آنکھیں کھول کر بآوقاز بلند پڑھیں اور نگاہ نقش کعبہ پر لکھے ہوئے اسم "اللہ ” پر مرکوز کردیں ۔
۵۔ جب یہ عمل مکمل ہوجائے تو اانکھیں کھول کر نقش کعبہ پر اسم "اللہ” پر نظر جما کر زبان سے ایک تسبیح سبحانکَ سبحانکَ پڑھیں۔
۶۔ اس کے بعد پھر آنکھیں بند ۔۔ زبان ہلائے بغیر دل ہی دل میں اللہُ ۔۔ اللہُ کی پانچ تسبیح پڑھیں۔
یاد رکھیں کہ پہلا اور دوسرا عمل کرتے وقت لا الہ الا کو اللہ سے ملا کر نہ پڑھیں بلکہ اللہ الگ پڑھیں ۔ جیسے لَا اِلَہَ اِلَّا اَللہ ۔ مذکورہ عمل پڑھتے پڑھتے چالیس دن گزریں گے تو عامل کی ہر دعا قبول ہونے لگی گی زبان میں خاص تاثیر پیدا ہوجائے گی جب بھی وہ اپنے لئے یا کسی دوسرے کے لئے عمل کرکے دعا مانگے گا تو اس کا نتیجہ ضرور ظاہر ہوگا۔
یہ یاد رہے کہ یہ ذکر و شغل چالیس دن تک بے لوث اور بغیر کسی غرض کے خالص ہونا چاہئے یعنی دین دنیا کی کوئی غرض خیال میں نہ آئے ۔ چالیس دن کے بعد دین دنیا کی اغراض اور مقاصد کے لئے دعا مانگ سکتے ہیں انشاء اللہ عامل کی دعا سریع الاجابت ہوگی ۔
عارفین اسم اعظم کی پہچان ان کے چہروں سے ہوتی ہے اگر ایک عارف پزار آدمیوں میں بھی کھڑا ہوگا تب بھی پہچان لیا جائے گا اس کے چہرہ پر نور ہوگا کیونکہ اسم اعظم ورد کرنے کے بے شمار تاثیرات کے علاوہ ایک معمولی تاثیر یہ ہے کہ اس کا چہرہ نورانی ہوجاتا ہے خواہ وہ کیسا ہی بدصورت اور کریہہ ہو ۔
اسم اعظم صرف مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ دنیا کی تمام قوموں کے لئے ہےہ ہر مذہب ۔ قوم ۔ عقیدہ کا آدمی یعنی مرد و عورت اس کی برکات سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں لہٰذا عارفین اسم اعظم کسی شخص مذہب قوم قبیلہ کو بُرا بھلا نہ کہے ۔ کسی سے نفرت نہ کریں کیونکہ نفرت انسان کو بدصورت بنادیتی ہے اور انسان کے چہرے کی رونق اور نورانیت کو برباد کردیتی ہے چاہے انسان کیسا ہی ؔخوش جمال اور کیسا ہی نورانی صورت کیوں نہ ہو مگر جب پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرے گا تو اس کے چہرہ کی نورانیت جاتی رہتی ہے ۔
یہ ہیں وہ اسرار و رموز جن کو متقدمین اور ما بعد بزرگان دین نے چھپایا ۔ اور اسم اعظم پڑھنے کے عمل سینہ بہ سینہ تفویض کئے گئے ۔ عوام الناس کو بتانے سے بخل برتا گیا جس کی وجہ سے ہم مسلمان نہ تو روحانی طور پر کوئی خاص ترقی پا سکے اور نہ ہی مادی طور پر ترقی کی منازل طے کر سکے ۔ لہٰذا ہم تنزل کی پستی میں گرتے چلے گئے جبکہ یورب میں اہل یورپ نے ہمارے اثاثے پر قبضہ کرلیا یعنی روحانیت میں جو ہمارا ورثہ تھا اس میں انہوں نے کمال حاصل کیا جس کا اقرار خود بزرگان دین نے اپنی تصنیفات و تالیفات میں کیا ہے ۔