علم جفر علم لدنی ہے
علم جفر علم لدنی ہے
اس مسلمہ حقیقت کے جان لینے کے بعد کہ علم جفر اور اس کے متعلقات کا شمار ان علوم مخفیہ میں ہوتا ہے جن کے آثار انبیاء و آءمہ اہلبیت علیہم السلام کے صدور مقدسہ میں خدائے عظیم کی طرف سے وحی کی صورت تعلیم فرمائے گئے تھے ۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم جفر اخبار اور اس کے آثار جب خاص نوعیت کے حامل ہیں اور خدائے عظیم نے اس کے لئے صرف اپنے خاص بندوں کو ہی منتخب فرمایا ہے تو پھر عوام تک اس کے اثرات کا پھیل جانا کس طرح ممکن ہوا ؟ اس کے علاوہ یہ امر بھی حقائق کا آئینہ دار ہے کہ یہ علم مقدس ورثہ انبیاء ہونے کے اعتبار سے علم لانی ہے اور علم لانی عوام کے تحصیل و فن میں موثر نہیں ہو سکتا۔ اس شعبہ کا جواب متعدد طریقوں سے دیا جا سکتا ہے ۔
سب سے پہلے تو یہ کہ اس علم کو علم لانی کے حقائق کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے خاص وجوہات کے لحاظ سے اور وہ وجوہات ہیں اس کے فوائد سے مختلف باتوں کا قبل از وقت درست حصول ۔ لیکن یہ قوت اس فن کی تربیت کو علم لانی کا نام دینے سے قاصر ہے اس لئے کہ علم لانی میں جس چیز کا انکشاف کیا جاتا ہے اس میں مادی وسائل کو کوئی دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی مادی ذرائع سے اس کی تعبیر کی جا سکتی ہے ۔ اس کے برعکس حروف و اعداد اور ان کا استعمال مادی وسائل کا مجموعہ ہی تو ہے جو عملی صورت میں جفر کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے اس صورت میں بھی ہم جفر کی تربیت کو علم لانی کا نام نہیں دے سکتے ۔
دوسرا بڑا امر جو علم جفر کے قواعد کو علم لانی ہونے سے مانع ہے وہ علم جفر کی تقسیم ہے اور ایک ایسا فیصلہ کن جواب ہے جس سے اس فن کا کوئی ماہر بھی انکار نہیں کر سکتا ۔ علم جفر تقسیم کے اعتبار سے لا تعداد اقسام اور ان کے قواعد کو لحیظ ہے جب ہم ان اقسام کی تفصیل پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ جفر دراصل علم ریاضی کا ایک شعبہ ہے جس کی تلاویات دراصل روحانی دنیا سے متعلق ہے اور مادی دنیا میں اس سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کئے گئے ۔
اس سے بھی بڑی وجہ اس فن کے ناکام ماہرین کی طرف سے یہ فرض کرلینا تھا کہ علم جفر کا حصول نا ممکن ہے اس مفروضہ کا اثر یہ ہوا کہ ارباب تحقیق نے اس فن میں دلچسپی لینا بند کر دی اور اس طرح یہ علم سراپا راز بن گیا اور اس کے حصول میں ناکام رہنے کی وجہ معلوم کر کے خاموش ہوگئے حالانکہ کسی طور پر بھی یہ بات علماء فن کے شایان شان نہیں تھی ۔
تیسری بات جو علم جفر کے بارے میں اس مفروضہ کی کہ علم جفر علم لانی ہے اور اس کا حاصل کرنا نا ممکنات سے ہے نفی کرتی ہے وہ علم جفر کی تاریخ ہے اس لئے کہ علم جفر کے ابتدائی آثار تو جناب آدم علیہ السلام پر نازل ہوئے اور ان کے بعد اگر علم جفر علم لانی تھا اور خاصان خدا ہی راز تھا تو ضروری تھا کہ حضرت ابو البشر کے بعد یہ سلسلہ صرف اور صرف انبیاء تک ہی محدود رہتا اور دوسرے لوگ اس سے فوائد حاصل نہ کر سکتے لیکن جب ہم ایک نظر تاریخ پر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مرسلان دین خداوندی کے علاوہ بھی لا تعداد ایسے انسان گزرے ہیں جو کو اس فن میں ماہر ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے بلکہ اس کے علاوہ ان لوگوں نے اس فن کی بہت زیادہ خدمت کی ہے ۔ سب سے پہلے اس فن کو اپنے تجربات کی رو سے آزمایا اور درست ہونے کی صورت میں اپنے بعد اانے والے لوگوں کے لئے اس کے قواعد تحریر کر دیئے ۔
اگر یہ قواعد درست نہ ہوتے اور اس علم کا حصول نا ممکنات سے ہوتا تو یہ علماء ہرگز ہرگز ایسا نہ کرتے بلکہ ایسا ہونے کی صورت میں عوام اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو اس حقیقت سے آگاہ کردیتے کہ علم جفر کا حصول نا ممکن ہےتاکہ ان کی محنت اکارت نہ جاتی ۔ لیکن ان علماء نے اس فن پر بڑی بڑی عظیم تصنیفات تحریر فرمائیں اور ان میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ جفر اور اس کے قواعد کی صداقت کو پیش کیا ۔ اس کے علاوہ ان علماء اور ماہرین کی تمام زندگی بھی اس حقیقت کا ثبوت رہی کہ علم جفر کا حصول ممکن ہے اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا اظہار کیا جا سکتا ہے ۔
علامہ محمد ابن بزداں کوفی جو علم لانی کے ایک بہت بڑے عالم اور محقق گزرے ہیں انہوں نے اپنی تصنیف لطیف نکتہ الاخبار میں تحریر فرمایا ہے کہ میرے جد نامدار بن وہاب نے اپنی وفات کے قریب مجھے اپنے پاس بلایا اور چند مقطعات قسم کے حروف تعلیم فرمائے جب میں نے ان کی تعبیر دریافت کی تو فرمانے لگے کہ ان حروف کو اعداد سے بدل دو اور ہر عدد کو اس کے بسط سے ترتیب دیتے جاؤ اس سے ایک جدول کی صورت پیدا ہوگی جس کے مقدم و موخر حروف کو اول سے آخر تک شمار کر لو اور جو سوال تمہارے ضمیر کا ہو اس کے حروف سے تطابق دے دو یہ طریقہ جن حروف کو ظاہر کرے گا وہ تمہارے سوال کا مکمل جواب ثابت ہونگے ۔
یہ طریقہ اعداد کیا ہے اس کی تفصیل عرض کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات بھی وضاحت کے ساتھ پیش کر دی جائے کہ ابن وہاب کا پورا نام محمد نصیر کوفی ہے اور آپ اقلیم امامت کے ساتویں تاجدار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے تلامذہ میں سے ہیں اور آپ کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ آپ جفر کے ان حقائق کے عامل ہیں جن کی قوت سے انسان دنیا کے مشرق و مغرب کو ایک دوسرے میں بدل سکتا ہے ۔
چنانچہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے مداحون کے حلقہ میں تشریف فرما تھے اور حقائق جفر کی تعلیم کا دور چل رہا تھا اس دوران آپ نے اپنے تلامذہ کی ایک کثیر جماعت کو قواعد علم جفر کی عملی ترتیب سے آگاہ کیا ۔ جس پر حاضرین میں سے اکثر نے آپ سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ جفر کے آثار کی کسی حقیقی قوت کا نظارہ پیش کریں تاکہ ہمارے دل اطمینان حاصل کرلیں ۔ ابن وہاب خاموش رہے اور اسطرح ظاہر کیا کہ جیسے وہ ان کے مطالبے سے بے خبر ہیں لیکن جب اہل محفل نے دوبارہ اس خواہش کا اظہار کیا اور عرض کی کہ اطمینان قلب کے لئے بلاشبہ آپ کی زندگی ہمارے سامنے موجود ہیں لیکن ہم اس مرتبہ وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جو حضرت خلیل خدا نے اختیار فرمایا تھا کہ میرے پروردگار بلاشبہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ زندگی اور موت پر تیری ذات قادر ہے لیکن میں اطمینان قلب کے لئے آج خود اس کا نظارہ کرنا چاہتا ہوں۔
اس دلیل پر علامہ محمد ابن وہاب نے رخ پلٹا اور آپ کے چہرے پر ایک سرخی کی لہر دوڑ گئی علامہ ابن یزداں نے اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے ذیل میں ہم اس کے بعد کے واقعہ کو مختصر طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ اس فن کے علماء کا اس علم مقدس سے فوائد حاصل کرنا ثابت ہو سکے ۔ اصل عبارت جو عربی میں ہے درج ذیل ہے ۔
قیل ان من اھل المحافل ابن وھاب و ہریکتبون بعض الاحوال لاعداد والحروف اما من یخاطبون یطلب ان یعرض لامر من یکشف لنا لاحکام الجفر ویتعلقہا ء قال ان کل من الامور فی امراللہ عزوجل ولیبس لاحد ان یقول ھو قادر علی ما ظہرت ویخفی من اعیان الناس ویتعلق ما کان وما یکون بل من کیفر من الجلس یخوض ان یطالبون باالثانیہ ان لھم یرون امرا مایدل لحقائق الحروف والاعداد الان قال ابن الوھاب اعنی المحمد النصیر بالکوفیہ سیاتی رجل ھناء ھو یشغل بالحزن والامر لاب مات ان مضت یوما وما لھ ھی تلک الرجل ممیت بعد ان مضت سبعہ یوم قیل مابرز من الساعہ حتی رانیا رجل مخو بالغبروھو محزون علی حالتہ فدا وصل دنا اھل المجلس قیل لھ ما جری وکیف لک الامر قیل من الغائب ان نزلت علیہ بلا بما مات ابہ من ماضیہ الغریبہ وقیل لہ ایھا القرب اذا صدقت قولک فاسمع ان اللہ یشبت یملک الساعہ بعد سبعہ ایام فاذا یسمعون بعد یوم ان یقتل الرجل بالقارہ وھو یعسبد بھا من ایدی الفارہ (نکتہ الاخبار جلد اول صفحہ ۲۱۵)۔
ترجمہ :علامہ ابن یزداں کوفی فرماتے ہیں کہ میرے جد نامدار ابن وہاب اپنے احباب کی ایک مجلس میں اپنے بعض تلامذہ کو جفر کے بعض قواعد تحریر کرنے کے لئے بیان فرما رہے تھے کہ اہل محفل نے آپ سے حقائق جفر کی عملی وضاحت کا مطالبہ فرمایا جس پر آپ نے فرمایا کہ ظاہر و باطن میں جو کچھ موجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم کی قدرت کاملہ کے تابع ہے اور انسان کا اس میں کوئی اختیار نہیں لیکن خصار مجلس نے اس بات پر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا ۔ آج کچھ دیر بعد ہماری مجلس میں ایک پریشان اجنبی آئے گا جو اپنے مرنے والے باپ کا ماتم کر رہا ہوگا اور اس کا باپ کوئی چالیس یوم ہوئے اس دنیا سے کنارہ کشی کر کے عالم باقی کا مکین ہوچکا ہے ۔ اس کے ساتھ میں تمہیں اس حقیقت کا پتہ بھی دیتا ہوں کہ یہی غمزدہ انسان آج سے کوئی سات روز بعد خود بھی داعی اجل کو لبیک کہہ دے گا۔
علامہ فرماتے ہیں کہ اہل محفل نے انتظار کیا تو کچھ وقت کے بعد ایک غبار آلود لباس میں ایک شخص سیدھا مجلس کی طرف آیا جب حاضرنین نے اس کی پریشانی کا سبب دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ اس کی پریشانی کا باعث کی باپ کی موت ہے حاضرین نے اس خبر غیب پر تعجب کیا اور آئندہ ہونے والے حادثہ کا انتظار کرنے لگے چنانچہ اسے مسافر کو اس کی موت کی خبر بھی دے دی گئی اور اس کے ساتویں دن بعد یہ خبر پہنچی کہ مسافر ایک جنگلی سفر کے دوران غارت گرگروہ کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے ۔
اس واقعہ کو بیان کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جفر میں جن علماء کو مہارت تامہ حاصل تھی وہ ماضی مستقبل کے بارے میں تمام باتوں کو قبل از وقت انکشاف کرنے پر قادر تھے یہ بات اس حقیقت کی بھی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ انبیاء کے علاوہ بھی ایسے افراد ملتے ہیں جن کو حقائق جفر پر عبور حاصل تھا تاریخ جفر میں جن ماہرین کے بارے میں یہ انتساب کیا جاتا ہے کہ وہ جفر کے آثار کے عالم تھے ان میں حکیم افلاطون ۔ جالینوس اور فلاسفہ کے سرتاج اور ارسطا طالیس بھی شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ جناب لقمان علیہ السلام اور بقراط جیسے نامور انسان بھی جفر کے ماہرین کی صف میں شمار ہوتے ہیں ۔
ان علماء کو نہ صرف جفر کے تمام قواعد پر عبور حاصل تھا بلکہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ان لوگوں کو تسخیر ملائکہ و کواکب تک کا ملکہ حاصل تھا لیکن اس کی بڑی وجہ صرف یہ ہے کہ ان علماء نے اس فن کی تحقیق کی اور صرف قواعد کی تعلیم تک محدود نہ رہے بلکہ ان کو عملی زندگی میں بھی اپنایا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں کو گوہر مقصود حاصل ہوا اور انہوں نے اس سے لا تعداد چیزوں کا انکشاف کیا موجودہ وقت جب کہ انسان اپنی ہمت سے چاند اور سورج کو اپنا غلام تصور کرتا ہے اور اپنی تدابیر کے دائدہ سے تمام عالم کا حاکم بن چکا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے لئے آثار ربانیہ کا انکار ممکن نہیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ علوم کائنات میں شامل صرف ان علوم سے فوائد حاصل کرنے اور ان کی تحقیقات میں کوششیں کی گئی ہیں جن کا مادیات سے بہت حد تک تعلق ہے ۔
علم ریاضی جو موجودہ وقت تمام دنیا میں نظام زندگی کا ایک لازمی حصہ قرار دیا گیا ہے اور اسے ہمارے روزمرہ کے کاروبار متاثر ہیں ۔ دراصل اس کی حقیقی بنیاد جفر اور اس کے اعداد پر ہی ہے ۔ مقدمہ ابن خلدون میں علامہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو البشر جناب آدم علیہ السلام کی اولاد میں جب اضافہ ہوا تو لوگ مختلف قبائل میں تقسیم ہونے لگے ان کی طرز بود و باش بھی ایک دوسرے سے مختلف تھی اس طرح انہیں مختلف زبانوں میں گفتگو کرنے کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تو اس ہر قواعد جفر کی امداد سے ایک باب تیار کیا گیا جس سے مختلف زبانوں کے کلمات اور جملے پیدا ہونے میں مدد ملی اس طرح یہ سلسلہ ایک داستان حیات کی طرح آگے بڑھتا گیا جب انسان نے اپنی کوشش سے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا تو پھر اس نے اپنی تحقیقات کی ابتداء سے انکار کرنا شروع کردیا جس کی وجہ سے مادیات کا شکار انسان دنیا کی ہر خوشی اور آرام کے حاصل کرلینے کے باوجود بھی پریشان ہے اور اس کی ضروریات میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس کا سکون زندگی کافور ہوچکا ہے ۔
مشہور ہیت دان ابن اندلسی کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ جہاں وہ علوم جدید کا پہلا محقق ہے وہاں اس کو روحانیات سے بھی خاصی دلچسپی تھی اس کے تحقیقاتی مراکز میں آراضی خلیات کے بارے میں صبح و شام کام جاری رہتا تھا وہاں اگر کوئی لاغر اور بیمار انسان شفاء کی تلاش میں آنکلتا تو ابن اندلسی جدید طب کی بجائے اپنی روحانی قوتوں سے کام لے کر اس کا علاج فرماتے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے ہاں ہر قسم کا مریض انسان شفایاب ہو کر جاتا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ان مشاہر نے جدید علوم کے ساتھ ان کی ابتدائی حکمتوں کو بھی اپنالیا ۔ اس لئے کامیابی نے ان کے قدم چومے ۔ اب اگر آج بھی اپنی زندگی کی نئی راہوں کو تلاش کر سکتے ہیں اس لئے ہمیں جدید قواعد کے ساتھ جفر کے آثار کے بارے میں کہ اس کا تعلق علم لانی سے ہے جیسے خیالات سے دور ہونا پڑیگا۔