ایک تلخ حقیقت
زندگی میں آرزوؤں کا ہونا فطری خاصہ ہے قدرت نے زندگی کا مقصد کیا رکھا ؟ ایک مرتب نظام ، ایک مکمل و جامع دستور العمل ۔ ایک ہمہ گیر مجموعہ ہدایات !! اور غرض و غائت تخلیق انسانی کا عرصہ عمل ! اور ہم نے زندگی کو کیا سمجھا ۔ عزت ، دولت ، شہرت ، حکومت ، دوست ، عزیز، بیوی ، بچے ۔ اور وہ عرصہ جس میں دکھ ہی دکھ تھے جہاں خوشی کا نام تک نہیں ۔ زندگی کا ہر آنے والا لمحہ ایک نئے فکر اور مشغولیت کو ساتھ لئے نظر آتا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک منٹ تک کی فرصت نہیں مل سکتی پھر بھی ہم بھوکے ہیں ۔ خوشی کے اور راحت کے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس کشمکش روز افزوں میں ایسی تدبیریں کیں جو ہمارے لئے خوشی اور راحت ، تفریح و انسباط ، لطف و مسرت کو لائیں ۔ جواب یہ ہے کہ کیں ۔۔۔۔ اور انسان نے اپنی حکمت و دانائی سے غم سے بچنے اور مسرت حاصل کرنے کے لئے سینکڑوں طریقے ایجاد کرلئے ۔ دیکھئے تاش۔ شطرنج ۔ گھوڑ دوڑ۔ مرغ بازی ۔ سیر و شکار ۔ ناول ۔ سینما ۔ ٹی وی ۔ شراب ۔ افیون ۔ کوکین ۔ فلمی ثقافت۔ کمپیوٹر ۔ ویڈیو گیمز
موویز وغیرہ وغیرہ خوشی کو لانے اور غم کو غلط کرنے کے لئے طریقے ایجاد کئے ۔
راحت و آرام کے لئے موٹریں ۔ ریل ، جہاز تار برقی ، غرضیکہ بیسیوں چیزیں ایجاد کرلیںکیا ان سب چیزوں نے جن کے نام سے خوش مسرت اور راحت ٹپکتی ہے انسان کو مطمئن کردیا اور کیا وہ اپنے مقاصد کو حاصل کر سکا؟؟
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو یہ بتائیے کہ ضروریات زندگی کی گرانی ۔ جہازوں کے ڈوبنے کی تباہی ۔ گاڑیوں سے حادثات۔ ھوائی جہازوں کے گرنے کا نقصان ۔ کاروں کے نیچے کچلے جانے والوں کی تعداد ۔ نئی نئی مہلک وبائیں ۔ ڈکیتی ، چوری ، جعلسازی ۔ خود کشی کے واقعات۔جیل خانوں کی آبادی ۔ ڈیموں کے خطرات ۔ سلطنتوں کی چپقلش ۔ ہرٹالوں کی کثرت ۔ بیروزگاری کا زور ۔ مہنگائی کا بھوت ۔ ایک ہی ملک و قوم کی اندرونی ہنگامہ آرائیاں ۔ یہ سب کے سب جو انسانی تجاویز مسرت و راحت کی پیدائش کے نتائج ہیں ، زندہ دلی اور مسرت اور راحت کی یہی علامتیں ہوتی ہیں ؟؟؟گیس اور بجلی کی روشنی سے کمروں کو بقعہ نور بنالیا ۔ سست رفتار ہرکاروں کی جگہ تار ۔ ٹیلی فون ۔ موبائل ۔ انٹرنیٹ کا انتظام کرلیا۔
نئی وضع کا لباس۔ گاؤں چھوڑا ، شہر آگئے ۔ مسجد کی دعاؤں کی بجائے ہسپتالوں میں پناہ لی ۔ تقاریر ۔ بزم آرائی ۔ کلب ۔ قہقہے ۔ تالیاں پارٹیاں وغیرہ ہم سے جو کچھ ہوسکا اپنی راحت کے لئے فطرت کو بدل ڈالا زبان سے اور عمل سے بھی ۔ دل و دماغ سے بھی ۔ کھانے کمانے میں غیر ملکی نظریات کا سہارا بھی لیا ۔ لیکن اطمینان و خوشی ، راحت و آرام ، یکسوئی و شگفتگی نہ حاصل ہونا تھی نہ ہوئی ۔
تمنائیں ، آرزؤئیں ۔ مقابلہ اور کشمکش بڑھتی ہی چلی گئی ۔ جس قدر آرام مسرت پیشتر سے حاصل تھا وہ بھی کھو بیٹھے ۔ زندگیاں غیر محفوظ ہوگئیں ۔
کیا حقیقتاً اس زمانے کی ایجادات جو بڑے بڑے دماغوں کی پیداوار ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے انسان ان پر فخر کرتے ہیں اور ان سے کام لیتے ہیں ، میں اس کی مخالفت یا برائی میں ایسے الفاظ استعمال کر سکتا ہوں ۔؟؟ اور کیا ایسا کہنا حق بجانب ہے ؟
میں کہتا ہوں ۔۔۔ نہیں
جو کچھ انسانی دماغ نے ایجاد کیا بالکل درست ہے اور ایسا چاہئے بھی تھا مگر اصل میں انسان نے مسرت و راحت اور دنگہ دلی کے صحیح مفہوم جاننے میں دھوکا کھایا ہے اور وہ بالکل صاف اور واضح ہے یاد رہے زنجیر کی ہر کڑی دوسری کڑی سے رشتہ و تعلق رکھتی ہے اگر اس رشتہ ارتباط کو توڑ دیا جائے تو ہم اس کو زنجیر نہیں کہہ سکتے ۔
اسی طرح کسی خاص جزو کو کل سے بے تعلق سمجھ لیا جائے اور اس ایک جزو سے ایسا کام لیا جائے جو اس کی کل فطرت کے منافی ہو تو قدرتاً نا اھلی اور غلط نتائج کا ظہور ہوگا ۔ انسان نے نظام زندگی اور تخلیق انسان کی وسعت پر نظر نہیں کی ۔ زندگی کے مادی جسمانی قوانین کو مد نظر رکھا اور اس کی دوسری کڑی روحانی و اخلاقی قوانین کو نظر انداز کر دیا گیا ۔ یہ مدار زندگی تھا اس ناقص اور غلط در غلط معنوں نے مسرت و راحت کے موجودہ نتائج کو ظاہر کردیا ۔
دلی اضطراب بے چینی ہی انسانی تکلیف و دکھ کا باعث ہے ۔ اس سے بچنے کے ہم نے دو طریقے ایجاد کئے ہیں ۔ ایک لہو و لعب سے جی بہلانا ۔ دوسرے نشہ میں غافل رہنا۔ یہ دونوں غلط تھے ۔ اطمینان قلب کا مطلب یہ ہے کہ دل ڈانوا ڈول نہ ہو اور کسی ایک مرکز پر ٹھہر کر بجائے انتشار کے سکون و یکسوئی حاصل کرے ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جسب کسی جزو کو اپنے کل کا احساس ہو قطرہ سمندر ہی میں سکون پکڑ سکتا ہے تو آئیں فطرت اور نظم کائنات کو جن لوگوں نے سمجھ لیا ہے وہ اس سکون کو حاصل کرنے کے لئے دل کو یاد خدا میں لگاتے ہیں ۔
اصلی مسرت و زندہ دلی ایمان میں ہے ۔ جو لوگ ایمان والے ہیں ان کی زندگی آج تک خشک کہی جاتی ہے خدا ترسوں کی زندگی لطف رنگینی سے خالی گنی جاتی ہے آہ ایسا کہنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی چشم تصور کے سامنے وہ پر لطف نظارے ، دلچسپ نقشے ہوتے ہیں جن کے مقابلہ میں موجودہ مادی دنیا کی رنگینیاں ، دلچسپیاں ، بہاریں ، نغمے ، تماشے کچھ حقیقت نہیں رکھتے ۔ ایک چھوٹی سی مثال لیجئے ۔
جب آپ بچے تھے ۔ مٹھائی کو کتنی رغبت سے کھاتے تھے ۔ کھلونوں سے کتنا پیار تھا ۔ جب بچہ سے جواب ہو کر تعلیم یافتہ ہوگئے تو وہ کھلونے تمہارے لئے بے فائدہ اور مٹھائی بے مزہ اور غیر لطیف چیزیں ہوگئیں ۔ ٹھیک اسی طرح ایک زاھد اور با ایمان شخص بالغ کی حیثیت رکھتا ہے اور دنیا والے بچہ کی ۔ وہ روحانی لطائف پر دنیاوی رنگینیوں کو کیسے ترجیح دے سکتا ہے قرآن حکیم ہے کہ
ومن یومن با اللہ یھد قلبہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی لا نفصام لھا الابذکر اللہ تطمئن القلوب
جنہوں نے قوانین فطرت اور سنت رسول اللہ کو جان لیا ۔ ان کا دل تکلیف اور مصیبت کے وقت ایسا رہتا ہے کہ اس کے لنگر کو بڑے سے بڑا طوفان حوادث بھی جنبش میں نہیں لا سکتا ۔ وہ ہمیشہ مطمئن رہے گا اور اس کے بعد تمام دنیاوی دکھ اور رنج ، ذہنی خلفشار ، دلی تلملاھٹ ، طبیعت کی الجھن ، زندگی کی شورش و اضطراب حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا دل میں انوار الہیہ کے جلوے اٹھیں گے تصور ان دیکھے نظائ میں کھ و کر ایسی مسرت سے مالا مال کردے گا کہ وہم و گمان بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا ۔