مُستحصلہ جفری الجبرا مع جَدْوَلْ | تحریر و تحقیق اظہر عنایت شاہ
مستحصلہ جفری الجبرا مع جَدول قارئین روحانی علوم ڈاٹ کام کے لئے سال نو کا ایک تحفہ !
اسے میری دیوانگی کہہ لیں یا پھر جفر کا اعجاز
ماضی میں جفر اخبار پر تحقیقی کام ہُوا ہے اور بہت اچھا ہُوا ہے ۔ جناب ڈاکٹر سعید اختر خان صاحب نے علامہ شاد گیلانی مرحوم کا مشہور زمانہ قاعدہ بدوح یلن پانچ سطری کی جداول بنائیں ، اسی طرح جناب سلیم رضا قریشی صاحب نے علامہ شاد گیلانی مرحوم کا مشہور زمانہ قاعدہ ابوطالبی کی جداول بنائیں ۔
ان دونوں طویل اور مُشکل قواعد کی جداول بنانا یقینا ایک بہت بڑا تحقیقی کام تھا ، جو ان دونوں حضرات نے سر انجام دیا جو قابل صد لائق تحسین تھا ۔
اور محققین جفار حضرات نے بھی اپنے طور بہت اچھی و عمدہ کاوشیں پیش کیں ۔
لیکن موجودہ وقت میں جفر اخبار پر تحقیقی کام ہُوتا ہُوا کہیں بھی دکھائ نہیں دے رہا ( مُلک پاکستان میں )
زاتی و انفرادی طور پر اگر ہوتا ہو تو ہوتا ہو ، لیکن پرنٹ میڈیا و سوشل میڈیا پر اسکا اثر کہیں دکھائ نہیں دے پارہا ( میری معلومات کے مطابق ) ۔
بلکہ اب تو رسائل میں جفر اخبار پر لکھنا بھی تقریبا نا ہونے کے برابر رہ گیا ہے ۔ بلکہ اگر یُوں کہا جائے کہ ختم ہو گیا ہے ، تقریبا ، تو بے جا نہ ہو گا ۔
حکیم سرفراز احمد زاھد صاحب مرحوم میں یہ خُوبی بدرجہ کمال دیکھی کہ آخیر تک جفر اخبار پر لکھتے رہے زنجانی جنتری میں ہر سال جفری پیش گوئیاں کرتے تھے ۔
جفر اخبار سے اچھی وفا کی ، ورنہ کئ جفر اخبار پر دسترس رکھنے والے حضرات جو ابھی بھی حیات ہیں ، علم جفر ترک کر چکے ہیں ۔
مگر حکیم صاحب مرحوم نے آخیر تک جفر سے رشتہ جوڑے رکھا ، یہ اُنکی جفر اخبار سے کمالِ عشق کا واضح ثبوت تھا ۔
وطن عزیز میں جفر اخبار پر آخری کتاب میری معلومات کے مطابق حکیم صاحب مرحوم کی ” انکشافاتِ جفر ” شائع ہوئ ہے ۔ اللہ تعالی اُنکی مغفرت فرمائے ۔
مُستحصلاتِ جفریہ کی جداول بنانا یقینا ایک خاصہ ذہنی مُشقت اور وقت طلب والا کام ہے ۔
اس مصروف و تیز تر رفتار اور پیسے کی ہوس والے دور میں مُستحصلاتِ جفریہ کی جداول بنانا پھر بغیر کسی طمع و لالچ کے شائع کرانا ، کسی دیوانے کا ہی کام ہو سکتا ہے ۔
ایک قریبی دوست نے ایک کتاب کا اشتہار بھیجا ، کتاب کا نام ” عملیات طلسمی تسخیرات موکلات ” صفحات کتاب ۲۲۷ ، ہدیہ کتاب : ۳۵۰۰ ، خاص اجازت کیساتھ مشروط ۔مصنف کے نام ساتھ حکیم و ڈاکٹر بھی لکھا ہُوا ہے ۔
بندہ نے جب کتاب کا مندرجات کی شہ سُرخیوں پر نظر دوڑائ تو ایک شہ سُرخی پڑھ کر یکدم جھٹکا لگا ، وُہ شہ سُرخی تھی میرے تحقیقی مضمون ” کیا عدد آٹھ نحس ہے ” کی جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ عدد آٹھ کے مثبت پہلو پر روشنی ڈالی گئ ۔
مجھے دُکھ اس بات کا اتنا نہیں ہُوا کہ میرا مضمون چوری کیا گیا، جتنا اِس بات کا ہُوا کہ شعبہ عملیات جو ایک مُقدس شعبہ ہے لوٹ کھسوٹ کا ذریعے بنا دیا گیا ہے ۔
آپ نے حرام خوری و چور بازاری کرنی ہی ہے تو حرام خوری و چور بازاری کے اور بہت سارے راستے ہیں ، وہاں جاکر شوق سے کیجئے ، یہ کیا ؟ کہ روحانیت کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح عوام کو لوٹ کر اور اِس مقدس پیشے کو داغدار کرر رہے ہیں ۔
علم کا مقصد لوگوں کی جیبوں کا صفایا کرنا نہیں ہوتا ، آپ کتاب کی قیمت تین ہزار پانچ سو روپے تب رکھتے جب وہ کتاب آپکے صدری مجربات و تجربات ، آپکی تحقیق و کاوش کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ۔
اورں کے مضامین اور کتابوں سے مواد سرقہ کرکے ۳۵۰۰ روپے کی قیمت پھر اسکو خاص اجازت کیساتھ مشروط کرنا چہ معنی دارد ۔
کتاب میں واقع باقی اور شہ سُرخیاں میں شامل ، عمل ٹیلی پیتھی ٭ روحانی موکل کی تسخیر٭قرآنی استخارہ٭ جنات دیکھنے کا عمل٭کوہ کاف کی سیر٭ لکشمی دیوی کا عمل٭ تسخیر شمس الجن٭ جن کے بچے کی تسخیر ٭شمانی پری کی حاضری٭ عمل گروجن کی حاضری٭ تسخیر موہنی دیوی کا عمل ٭ عمل کشف القبور وغیرہ وغیرہ
مندرجہ بالا تمام اعمال سے ، عملیات کی کتابیں ، رسائل و انٹر نیٹ بھرا پڑا ہے ۔ تسخیر الارواح و جنات کے اعمال کوئ بچوں کا کھیل نہیں ، صاحب کتاب نے زندگی بھر ان اعمال کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا ہوگا ، جو اوروں کو اس دلدل میں دھکلینے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ افسوس صد افسوس
محقق عظیم محترم غلام الرسول میمن عائلی نقشبندی صاحب مرحوم اپنی کتاب مُکاشفاتِ نور میں اسی بات کا رونا روتے ہیں ، لکھتے ہیں : لیکن عصر حاضرہ میں اِس رجحان نے ایک ایسی عظیم خیانت کو جنم دیا ، جس کی تلافی شاید صدیوں پر محیط وقت بھی نہ کر سکے ، وہ خیانت یہ تھی کہ دوسروں کی کتابوں کا چربہ لے کر ایک نئ تصنیف عوام پر دے ماری گئ بغیر کسی حوالے کے ، بغیر کسی سند کے اور بغیر کسی چھان چھٹک کے ۔
اور اسی طرح آج ہم جس دورسے رہ رہے ہیں ، وہ ان علوم روحانیہ کے انحطاط کا ایک ایسا تاریک دور ہے ، جس میں ناقص چربوں کی بھر مار ہے کہ اصل مصنف جن کی کوئ کاوش ( ان متاخرین کی کتب میں مسخ صورت میں موجود ہے وہ ) دھری کی دھری رہ گئ ہے ۔ اور رہا اصل علم۔۔۔۔۔۔ وہ تو آج بھی ٹھوکروں میں ہے ۔
کتاب کے آخر میں مزید لکھتے ہیں : آخر میں میری ایک استدعا ہے ان اہل قلم حضرات سے جن کو دنیا اہل علم سمجھتی ہے کہ خدارا ! کتاب لکھو تو علمی لکھو تاریخ میں لا یعنی صفحات کا اضافہ نہ کرو ، تاریخ پہلے ہی ان علوم کے بے کار صفحات کے بوجھ تلے دب چکی ہے اور پڑی سسک رہی ہے ! ماتم کر رہی ہے ! کہ کوئ تو آئے ! اور اوپر سے یہ بے کار کا بوجھ اٹھادے ! ۔۔۔۔۔۔
قارئین کرام ! اِن حضرات نے تو اپنی حرکت سے باز آنا نہیں ، آپ احتیاط کا دامن تھام لیں ، ایسے کسی بھی اشتہار والی کتاب کو خاطر میں نہ لائیں ۔ ان کتابوں کی مثال ” کھودا پہاڑ نکلا چوہا ” کے سی ہے ۔
یہ بندے کا کچھ دردِ دل تھا ، جو آپ کے سامنے بیان کردیا ، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہیں آپ کی کمائ ضائع نہ ہو نے پائے ۔ اللہ میرا اور آپ کا حامی و ناصر ہو ، حلال سے عطا فرمائے ، حرام سے بچائے ۔ آمین
اللہ کے حضور دعا ہے ” اَللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ ، وأَغْنِنِي بفضلك عَمَّنْ سِوَاكَ "
ترجمہ : اے اللہ ! جن اشیاء کو تو نے حرام کیا ، ان سے بچاتے ہوئے اپنی حلال کردہ اشیاء کو میرے لیے کافی کر دے اور اپنے فضل سے مجھے اپنے سوا ہر کسی سے بے نیاز کردے ۔
آمدَم بَر سَرِ مَطلَب ، ہم اس سے پہلے دو مُستحصلات جفریہ بمع جداول پیش کر چکے ہیں ۔اس بار بھی آپ کی خدمت میں ایک مُستحصلہ جفر بمع جَدْوَلْ پیش کر رہے ہیں ۔
چاہئے تو یہ تھا کہ ہم اب مزید تحقیق ( جداول ) پر کام روک دیتے یا اگر کرتے بھی تو صرف اپنے تک محدود رکھتے ، لیکن آپ اسے میری دیوانگی کہہ لیں یا پھر جفر کا اعجاز ۔۔۔۔
گو زاتی طور پر یہ قاعدہ استعمال کرنے کا موقع کم ہی ملا ہے ۔ تاہم چونکہ ماضی کا ایک مشہور و معروف قاعدہ رہا ہے ، یہ قاعدہ وطن عزیز میں سب سے پہلے علامہ شاد گیلانی مرحوم نے ۱۹۷۶ میں شب گوہر چراغ کے نام سے شائع کرویا تھا ۔
کتاب آفتابِ جفر میں جفری الجبرا کے نام سے شائع ہُوا ، پھر آخر میں کتاب انکشافاتِ جفر میں زائرجۃ الوفا کے نام سے شائع ہُوا ۔ یہ درالاصل مصر کے مشہور جفار عبدالفتاح طوخی الفلکی کی کتاب ” مدھش الباب فی اسرار الحروف و عجائب الحساب ” کا قاعدہ ہے ، جیسا کہ حکیم صاحب مرحوم نے اسکی وضاحت کی ہے ۔
لیکن ہم آفتابِ جفر سے ہی اسکی تشریح اور مثال دے رہے ہیں ۔ تشریح و مثال پیش خدمت ہے ۔
تشریح العمل
۱/ مختصر مگر جامع سوال لکھیں ۔ مرکزی سوالات میں نام سائل دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ محوری سوالات
میں نام سائل بمعہ نام والدہ اور تاریخ ، ماہ و سال کا تذکرہ کرنا از حد ضروری ہے ۔ ورنہ جواب نہ بن پائے گا اور
آپکو پھر سے ” جفر ناپید ہے ” کا شکوہ ہو گا ۔
۲/ مکمل بسط حرفی کرلیں ، مثلاًسوال ہے ۔ شمس کیا ہے ؟ بسط حرفی یہ صورت ہو گی ۔ ش م س ک ی ا ھ ی
۳ / بہتر یہ ہو گا کہ سوال ۲۸ حروف میں ہو ۔ بہر حال اگر حروف کم یا زائد ہوں تو بھی یہ مُستحصلہ جواب ضرور دیتا ہے ۔
۴ / ہر حرف کے مراتب ابجدی لکھیں یعنی یہ حرف ابجد قمری میں کتنے نمبر پر واقع ہے ۔ جیسے ” ی ” نمبر ۱۰ پر واقع ہے ” م ” ۱۳ نمبر پر واقع ہے وغیرہ وغیرہ ۔
۵ / اب مرتبہ ابجدی اور سوال کے حرف کا نمبر شمار جمع کریں ۔
۶ / اِن اعداد کا ترفع افرادی کریں ۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حرف یا عدد سے آگے ایک حرف یا عدد چھوڑ کر لینا ۔
مثلاً ۶ کا ترفع زواجی ۸ ہے ۔ ۸ کا ترفع زواجی ۱۰ ہے ۔
سطر مُستحصلہ لکھیں جس کے قواعد مندرجہ ذیل ہیں ۔ ہر خانہ کے کے الگ الگ قوانین ہیں ۔ درج کر رہا ہوں ۔
رقم سے مراد اعداد ترفع شدہ ہیں ۔
۸/ رقم کے اعداد سے مستحصلہ اعداد کی ضرب ، جمع یا تفریق جو بھی عمل کریں حاصلہ اعداد پر غور کریں اگر یہ ۲۸
سے بڑھ جائے تو ۲۸ پر تقسیم کرکے بقایا والے عدد کو کام میں لائیں مثلاً خانہ دوم میں رقم ۱۲ ہے خانہ دوم کے قانون کے
مطابق رقم میں ۳ جمع کرنا ہے ۔ اس طرح حاصلہ اعداد ۱۲ + ۳ = ۱۵ ہوئے ۔
۹ / بقیہ اعداد کے مطابق ابجد سے بلحاظ مراتب حروف حاصل کر لیں ۔ مثلاً ۱۵ عدد ہے تو ابجد میں ۱۵ نمبر پر س موجود ہے ۔
۱۰ / حاصلہ حروف کو ایک بار موخر صدر کریں یہ سطر جواب کی ہے نظیرہ و ہم رتبہ سے نہایت جامع جواب بنے گا ۔
یعنی ، علم جفر ( کاشف ) انکشافات کرنے والا اور عرفان کرانے والا علم ہے ۔ جواب خود بول رہا ہے ۔
اب ہم آپ کی خدمت میں اس قاعدہ کی جَدْوَلْ پیش کر رہے ہیں ۔ جس کی مدد سے آپکو لمبے چوڑے حساب کی
جھنجھٹ سے نجات مل جائے گی ۔
طریقہ استعمال جدول : آپ اس جدول کی مدد سے مجموعہ شمار و مرتبہ کی سطر سے سیدھا ، سطر مراتبی تک پہنچ
پائیں گے ۔
مثلاً مندرجہ بالا مثال کے مجموعہ شمار و مرتبہ کے پہلے خانے میں عدد ۱۷ ہے ۔ اب جدول کے دائیں طرف عدد ۱۷ کے
بالمقابل پہلے خانہ میں حرف ا موجود ہے ۔ اب ہم نے مثال میں مراتبی حروف کی سطر کے پہلے خانے میں دیکھا تو حرف ا کو موجود پایا ۔
مجموعہ شمار و مرتبہ کے دوسرے خانہ میں عدد ۱۴ ہے ۔ اب جدول کے دائیں طرف عدد ۱۴ کے بالمقابل خانہ نمبر ۲
میں دیکھا تو حرف ج ہے ۔ اب مثال میں سطر مراتبی کے خانہ نمبر ۲ دیکھا تو حرف ج کو موجود پایا ۔
اُمید ہے کہ آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔
علم جفر کیا ہے ؟
آخری تین سطور کیسے نکالتے ہیں
موخر الصدر
ہم رتبہ
اور جواب کی
باقی الحمدللہ کر چکا ہوں
محترم ، موخر صدر و ہم رتبہ علم جفر کی ابتدائی اسباق میں سے ہیں ، انکو سمجھے بغیر حصول جواب ممکن نہیں ۔
آپ اسکے لئے علم جفر کی بنیادی اصطلاحات کو پڑھ کر سمجھ لیں ۔
اسکے لئے کتاب ” آفتاب جفر حصہ اول ” از غلام عباس اعوان کو پڑھیں ۔
وہ آپکے لئے انشاء اللہ بھت ہی ممد و معاون ثابت ہو گی ۔