سعادت یا نحوست
آج ایک اہم اور نازک موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں اکثر حضرات کا کہنا ہے کہ سعد و نحس ساعتیں صرف نجومیوں کی من گھڑت باتیں ہیں اس کا دین اسلام یا شرع سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ اکثر اپنی دلیل کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی(رح) کا معمول تھا کہ وہ سعد و نحس ساعات کا خیال رکھے بغیر تعویذ استعمال فرمایا کرتے تھے اور اسی قسم کے دیگر دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔
ایک بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلمان اپنے مسلک کی حقانیت کے جو بھی دلائل رکھتا ہے وہ خود اس کی اپنی ذات کو تو مطمئن کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں لیکن دوسروں کو نہیں ۔ دلائل سے صرف یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہم جس طرز اور جس نقطہ نظر کو اختیار کئے ہوئے ہیں وہ برحق ہے ان دلائل سے دوسروں کو مطمئن کرنا آسان نہیں ہوتا اگر دلائل و براہین سے دوسرے لوگ بھی مطمئن ہوجایا کرتے تو دیو بندی حضرات بریلوی کو دیوبندی بنانے میں اور بریلوی حضرات دیوبندیوں کو بریلوی بنانے میں کامیاب ہوجاتے لیکن ہزار کوشش کے باوجود بھی کوئی ایک طبقہ بھی دوسرے طبقے کو اپنا ہمنوا نہیں بنا پاتا جب کہ دونوں کے پاس دلائل کا ایک انبار موجود ہے صحیح بات یہی ہے یکہ دلیلیں صرف اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لئے ہوتی ہے دوسروں کے دماغوں کو ان کے ذریعہ تبدیل کرنا آسان نہین ہوتا۔
قارئین کو یہ بات شاید معلوم نہ ہو کہ رب العالمین نے اس کائنات کو ضد اور تخالف کی بنیادوں پر پیدا کیا ہے ہر چیز کی ایک ضد پیدا کی گئی ہے تاکہ اس کی شناخت ہو سکے چنانچہ عربی کا ایک مقولہ ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے ۔ آپ غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں روشنی کو پیدا کیا تو اس کے مقابلے میں اندھیرے کو بھی پیدا کیا اگر اندھیرا پیدا نہیں کیا جاتا تو روشنی کا مفہوم کیسے سمجھ میں آتا اسی طرح رب العالمین نے اس دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں چیزوں کو پیدا کرکے ان کی ضدیں بھی پیدا کی ہیں اور ان ضدوں سے ہی ان چیزوں کا مفہوم سمجھ آتا ہے مثلاً علم پیدا کیا گیا اس کے مقابلے میں جہالت پیدا کی گئی ۔ محبت کو پیدا کیا گیا اس کے مقابلے میں نفرت پیدا کی گئی ۔ دوستی کو پیدا کیا گیا مقابلے میں دشمنی پیدا کی گئی ۔ شرافت کو پیدا کیا گیا مقابلے میں رذالت پیدا کی گئی ۔ نیکی کو پیدا کیا گیا مقابلے میں گناہ کو پیدا کیا گیا ۔ سنت پیدا ہوئی مقابلے میں بدعت نے جنم لیا ۔ اسلام بنایا گیا اس کے مقابلے میں کفر کو پیدا کیا گیا اخلاص کو پیدا کیا گیا مقابلے میں نفاق کو پیدا کیا گیا ۔ تقویٰ ، خوشبو ، حکمت ، وفا، دیانت ، تندرستی ،غذا تریاق وغیرہ ۔۔۔ الغرض کونسی ایسی چیز ہے جس کی ضد اس دنیا میں نہ ہو اور جو اپنی ضد کی وجہ سے نہ پہچانی جاتی ہو ۔ اگر اس دنیا مین علم ہوتا اور جہالت نہ ہوتی تو علم کی قدر کون کرتا ؟ اور علم کے معانی کیسے سمجھ میں آتے اگر اس دنیا میں محبت ہوتی اور نفرت نہ ہوتی تو محبت کا مفہوم کیسے سمجھ میں آتا ؟ اگر اس دنیا میں نیکی ہوتی اور بدی نہ ہوتی تو نیکی کو اور نیک لوگوں کو کون اہمیت دیتا؟ اگر اس دنیا میں تندرستی ہوتی اور بیماری نہ ہوتی تو تندرستی کو قدردانی کی نظر سے کون دیکھتا ؟
اگر اس دنیا میں خوشبو ہوتی اور بدبو نہ ہوتی تو خوشبو کی تعریف کون کرتا ؟ اور خوشبو سے محظوظ ہونے کی خواہش کون کرتا ؟ اگر سنتیں ہوتیں اور بدعتیں نہ ہوتیں تو ارباب سنت کو خراج عقیدت کون پیش کرتا الغرض اس دنیا میں کسی بھی اچھی چیز کی قدر تب ہی ہوتی ہے جب اس کی ضد موجود ہو ، اسی طرح اس دنیا میں رب العالمین نے مبارک اور سعید چیزیں پیدا کیں اگر غیر مبارک اور منحوس چیزیں اس دنیا میں نہیں ہیں تو پھر مبارک سعید چیزوں کی ضد کیا ہے ؟؟؟
کہنے میں یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز منحوس نہیں ہے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ اس دنیا میں بلاشبہ بہت سی چیزیں غیر مبارک اور نحس ہوتی ہیں اور ان کی نحوست انسانوں پر اور دوسری اشیاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔
قرآن کے مطابق "کل یوم ھو فی شان” یعنی ہر دن حق تعالیٰ کی ایک نئی شان ہے ۔ جمعہ کے دن ان کی شان ودودیت کا ظہور ہوتا ہے ، جمعرات کے دن شان رحمانیت کا ، منگل ان کی شان قہاریت ظہور میں ہے اور اتوار کے دن شان رزاقیت۔ اسی طرھ ہر ساعت اور ہر گھڑی مین ان کی مختلف قدرتوں کا اظہار ہوتا ہے ایک دم یہ کہہ دینا کہ ساعتوں کا کوئ مطلب نہیں ہے اور اسلام اس طرح کی باتوں کا قائل ہی نہیں ہے یہ صرف کم علمی اور نا سمجھی کی باتیں ہیں نہ یہ تقویٰ ہے نہ ہی پرہیز گاری ۔
حضرت مولانا یعقوب نانوتوی جو دارالعلوم دیو بند کے سب سے پہلے محدث تھے ، انہوں نے اپنی کتاب "بیاض یعقوبی ” میں تحریر فرمایا ہے کہ مرگی کو دفع کرنے کے لئے مرغ کے خون سے تعویذ لکھنا چاہئے اور اس تعویذ کو اتوار کے دن پہلی ساعت میں لکھنا چاہئے اگر ساعتوں کی روحانی عملیات میں کوئی حیثیت نہ ہوتی تو مولانا یعقوب(رح)یہ بات کیوں لکھتے ؟ کیا وہ علم قرآن و حدیث سے واقف نہ تھے ؟
روحانی عملیات علاج و معالجہ کا ایک طریقہ ہے جو انسانی تجربات پر مشتمل ہے اس کو اوراق شریعت میں تلاش کرنا ایسے ہی جیسے سر درد کی گولی بنانے کا نسخہ احادیث کی کتب یا قرآن میں تلاش کرنا ،ظاہری بات ہے کہ یہ نسخہ جات تو نہ ملیں گے اب دستیاب نہ ہونے پر واویلا کرنا عقلمندی نہیں ہے اور نہ ہی پرہیزگاری ہے ۔ ڈاکٹر حضرات نے ٹی بی ، کینسر ، ایڈز شوگر یا اسی طرح کی چھوٹی بڑی بیماریوں کے لئے جو علاج جو پرہیز اور شرائط لکھے ہیں ان کا ذکر قرآن و حدیث میں کہاں آتا ہے ؟؟ آپ ان سب چیزوں کو کن بنیادوں پر ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں؟ مثلاً شوگر کے مریض سے ڈاکٹر کہتا ہے کہ اگر دو گھنٹے تک کچھ نہیں کھاؤ گے تو شوگر ڈاؤن ہوجائے گی ، کیلا ، آلو ، آم یا اسی طرح کی کوئی چیز کھا لوگے تو شوگر یکدم بڑھ جائے گی تو آپ اس طرح کی باتوں پر کیوں کر ایمان لے آتے ہو کیا ان کے بارے میں شریعت نے کوئی روشنی ڈالی ہے ؟؟؟؟
روحانی عملیات بلا شبہ اسلامی شریعت کا حصہ نہیں ہیں لیکن اس دنیا میں ہزاروں چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی شریعت کا حصہ نہیں ہیں انہیں کو بنیادوں پر اپنایا جاتا ہے جن بنیادوں پر ان باتوں کو انسان قابل اعتبار سمجھتا ہے ان ہی بنیادوں پر روحانی عملیات کی کلیات و جزویات کو کیوں قابل اعتبار نہیں سمجھا جا سکتا؟
رہی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی بات تو وہ صرف عالم دین اور ایک مسلمہ بزرگ تھے اور کسی بھی مستند عالم دین اور مسلمہ بزرگ کی بات دین و شریعت کے معاملات میں تو معتبر ہو سکتی ہے لیکن دوسرے علوم کے بارے میں اگر ایسے حضرات کچھ فرمانے لگیں تو ضروری نہیں کہ ہم ان کے فرمودات کو آنکھیں بند کرکے مان لیں اگر وقت کو کوئی فقیہ اور بزرگ یہ دعویٰ کرنے لگے کہ ٹیٹرا کیپسول اور ایول کھانے کا جو طریقہ ڈاکٹروں نے ایجاد کیا ہے اس میں دو ، فلاں فلاں خامی ہے یا یونانی اور ہومیو پیتھک علاج میں جو شرائط ہیں وہ درست نہیں لگتے تو کون ان کی بات کو محض یہ سوچ کر مان لے گا یہ اللہ والے ہیں اور صاحب علم بھی ہیں؟؟
بلا شبہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی حکیم الامت بھی تھے صاحب ورع بھی تھے مستند عالم دین بھی ، بے مثال واعظ بھی تھے اور تعویذ گنڈے بھی کرتے تھے لیکن باقاعدہ روحانی عملیات کے ماہر و کامل نہیں تھے اس لئے ان کی اس بارے میں رائے قابل احترام تو ہو سکتی ہے قابل عمل نہیں ہو سکتی ۔
اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طحال کے بارے میں اتوار اور بدھ کی قید دیکھ کر حضرت تھانوی نے فرمایا کہ "یہ قید زائد شے معلوم ہوتی ہے "۔ یہ جملہ ہی ایک اندازے کو ظاہر کرتا ہے اس جملے میں یقین کا اظہار نہیں ہے صرف ایک اندازے کا اظہار ہے اگر یقین والی بات ہوتی تو مولانا تھانوی یہ فرماتے کہ یہ قید و شرائط قطعاً غلط ہے ۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں فرمایا صرف ایک اندازہ قائم کیا جو غلط بھی ہو سکتا ہے اور صحیح بھی ۔
اسی طرح بعض لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ فلاں عامل اور خود حضرت تھانوی کسی بھی قید و شرائط کے بغیر تعویذ لکھتے تھے اور اثر بدستور قائم رہتا تھا تو صرف ایک استثنیٰ تو قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس کو قانون نہیں بنایا جا سکتا ۔ لوگ بد پرہیزی کرکے بھی تندرست رہتے ہیں لیکن ان کی تندرستی بدپرہیزی کا جواز پیدا نہیں کر سکتی ۔
ایک صاحب نے نحوست کو رد کرنے کے لئے درج ذیل حوالہ دیا کہ
مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں کہ یہ جو مشہور ہے کہ نحوست کے بارے میں بعض لوگ قمری کو یا الو کو یا کیلے کے درخت کو منحوس سمجھتے ہیں یا بعض ایام کو منحوس کہتے ہیں یہ کوئی چیز نہیں۔ میرٹھ میں ایک بنیا منحوس گھوڑی کو خریدتا تھا اور بہت نفع کماتا تھا اس کے حق میں وہی بابرکت تھے ۔
اگر اس عبارت کو غور سے پڑھیں تو بخوبی سمجھ آجائے گا کہ حضرت تھانوی نے بھی تسلیم کیا ہے جب ہی تو یہ فرمایا کہ میرٹھ میں ایک بنیا منحوس گھوڑے خریدتا تھا اس کے بعد مولانا تھانوی کا یہ فرمانا کہ وھ گھوڑے اس کے حق میں بابرکت ہوجاتے تھے خود اس بات کی دلیل ہے کہ مولانا تھانوی بھی گھوڑے کی نحوست کے قائل تھے ۔