ہپناٹزم ۔ ایک مخفی قوت
اگر ہم قدیم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں انسانی ارتقاء کے بڑے دلچسپ و عجیب باب ملتے ہیں اس میں سے ایک باب اس مخفی قوت کا بھی ہے جس پر انسان غیر ارادی طور پر عمل کرتا رہا ہے ۔ زندگی کی دوڑ میں انسان نے کئی جگہ خود کو بے اسرار اور مجبور پایا ہے اتنا مجبور کہ وہ یہ بات سوچنے پر بھی مجبور ہوگیا ہے کہ اس سے بڑی قوت بھی اس دنیا میں موجود ہے جو اس کی طرح کمزور نہیں ۔ ممکن ہے کہ یہ قطعی جبلی کیفیت ہو کہ وہ اپنے آپ کو کسی بڑی قوت کے سامنے جھکنے پر مجبور پاتا ہو کیوں کہ جبلی طور پر انسان ایک طرف توحاکمیت پسند ہے اور دوسری طرف اس کے اندر جبلت ِخود سپردگی بھی پائی جاتی ہے ۔ عہد قدیم کا انسان جب ان اشیاء پر قابض نہ ہو سکا تو جنہیں وہ اپنے قبضہ میں کرنا چاہتا تھا تو اس کے اندر اس قوت کے آگے جھکنے کا تصور پیدا ہوا جو اس سے بھی بڑی جابر قوت ہے اور یہیں سے انسان کے اندر دیوتا نے جنم لیا ۔ یہی دیوتا کبھی سورج تھا ، کبھی سانپ ، کبھی چاند ، کبھی آگ اور کبھی محض ایک قیاسی شے ۔ انسان نے اس عہد میں ان دیوتاؤں کی پوجا کی ان کو اپنے حق میں کرنے کے لئے قربانیاں پیش کیں محض اس لئے کہ وہ دیوتا اس پر مہربان ہو کر وہ قوت دے ۔ جس سے انسان ان چیزوں پر قابض ہو سکے جو اس کی دسترس سے بعید ہیں ۔ لہٰذا اس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسخیر شے کے لئے الگ الگ دیوتا بنا ڈالے
بارش کا دیوتا ۔ جنگ کا دیوتا ، بیماری کا دیوتا ، محبت کا دیوتا ، اولاد کا دیوتا وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ اور وہ الگ الگ خداؤں کو مسخر کرنے کے لئے برسوں ریاضت کرتا رہا ان ریاضت کرنے والوں نے کلی طور پر نہ سہی مگر کسی حد تک ایسی قوت کو مسخر ضرور کر لیا جو ان کو بعض ایسی چیزوں پر قابض بنا دیتی ہیں جو عام انسان کے قبضے سے باہر تھیں اور یہی لوگ رشی منی ، اس عہد کے بڑے مہا پرش تصور کئے جاتے ۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جب یہ لوگ کسی پر مہربان ہوجاتے ہیں تو وہ شخص سرخرو ہوجاتا اور جب کسی کے خلاف ہوجاتے ہیں تو وہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے
عہد قدیم میں لفظ "شراپ” کا بڑا چرچا تھا ۔ شراپ اس بد دعا کو کہا جاتا تھا جو کوئی مہا پرش کسی سے بگڑ کر اسے دیا کرتا تھا ۔ اور اس شراپ کے اثر سے حکومتیں تباہ ہوجاتیں۔ ملک میں قحط آجاتا ، بادشاہ علیل ہوجاتا اور پھر اگر یہی بزرگ کسی مرتے ہوئے مریض پر دست شفقت پھیر دیتا تو وہ تندرست ہوجاتا ۔
غریب امیر بن جاتے اور امیر غریب ہوجاتے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ ان دیوتاؤں کو مسخر کرنے سے ہوجاتا تھا ؟
یا کوئی جادو تھا جو اس حد تک کامیاب تھا یا پھر کیا صرف توہم پرستوں کے وہم نے تاریخ کے ابواب کو سیاہ کیا ؟ یا اس میں کوئی حقیقت بھی تھی ؟
کیا یہ معجزے تھے ؟جو انسان اس دیوتا کے بل بوتے پر کر دکھاتا تھا ؟
جواب کچھ بھی ہو
مگر یہ حقیقت ہے کہ قدرت نے انسان کو ایک مخفی قوت سے نوازا ہے جس کو برؤے کار لاکر وہ ایسی مثالی باتیں کر سکتا ہے جو عام آدمیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں ۔ بدقسمتی سے انسانی تہذیب کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ مہاپرش اور رشی منی لوگ تو ختم ہوتے چلے گئے مگر ان کی جگہ جادو ٹونوں نے لے لی اور پھر ان جادوگروں نے عرب ، یونان روم اور ہند میں ایسی ایسی باتیں کر دکھائیں کہ آج تک انسان خوف کھاتا ہے ۔
مگر یہ جادوگری بُرے مقاصد کے لئے زیادہ اور اچھے مقاصد کے لئے کم استعمال ہوتی رہی ۔ آہستہ آہستہ یہ جادوگر ختم ہونے لگے اور صرف شعبدہ بازی رہ گئی اس لئے کہ انسان نے اس مخفی قوت کی تلاش چھوڑ دی ۔۔۔ جو اس کے اندر قدرت نے بدرجہ اُتم بھردی تھی ۔
سائنس کی مادہ پرستی نے اس مخفی قوت کو قطعی طور پر ماننے سے انکار کردیا ۔ اور اس کو محض توہم پرستی کہہ کر ختم کردینے کی کوشش کی ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ لفظ توہم پرستی پر بھی غور نہیں کیا گیا کہ آخر توہم پرستی کیا چیز ہے ؟۔
یہ قوت جو انسان کے اپنے وہم سے پیدا ہوتی ہے انسان کو اندر ہی اندر گھن کی طرح کھا جاتی ہے یہ توہم پرستی آخر اتنی کارگر کیوں ہوتی ہے کہ انسان عموماً توہمات کا شکار ہوکر جان تک کھو دیتا ہے ۔
کئی لوگ کالی بلی کے راستہ کاٹنے پر مایوس ہوجاتے ہیں لوگ اس کو توہم پرستی کہتے ہیں مگر اکثر دیکھا گیا ہے یہ کالی بلی ضرور گل کھلاتی ہے
آخر کیوں؟
یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی گئی کہ آخر یہ کالی بلی کیا چیز ہے ؟ جس کا راستہ کاٹنے پر کام خراب ہوجاتا ہے کیا یہ کالی بلی ہی تھی ؟ یا انسان کا اپنا ذہن اس سے وہ کام خراب کروا دیتا ہے ؟
اگر کہا جائے کہ انسان کا اپنا ذہن ہی اس پر اثر انداز ہوتا ہے تو پھر اس ذہن کی قوت سے منکر ہوجانا ۔ کیا معنی ہے ؟
بہر حال جس طرھ عہد قدیم کا انسان اس مخفی قوت پر قابض ہونے کا خواہشمند تھا اسی طرح آج کا انسان بھی اس شوق میں سرگرداں نظر آتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت کا انسان اندھا تھا مگر آج کل کا انسان ذہنی بصارت رکھتا ہے اور اسی سائن نے جس نے اس روحانی قوت کے خلاف نعرہ بلند کیا تھا وہی سائنس آج ہماری رہبری کرتی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ روحانی قوت کیا ہے ؟۔۔۔۔۔
آج تک سائنس اس روحانی قوت کے متعلق فیصلہ کن تحقیقات سے قاصر رہی ہے ۔ وہ تو یہ بتاتی ہے کہ انسان کے اندر قوت ارادی اور فکر سے چند ایسی صلاحیتیں نشوونما پاسکتی ہیں جن سے ایک انسان دوسرے انسان پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے ۔
مگر وہ قوت کیا ہے ؟ اور اس حد تک کیسے بڑھ گئی کہ کوسوں دور بیٹھے ہوئے انسان پر اثر انداز ہوجاتی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے خیالات پڑھ سکتا ہے یہ باتیں تاحال کسی سائنسی نظریہ سے نہیں سمجھائی جائیں۔
ممکن ہے کہ روحانیت سے تعلق رکھنے والے افراد اعتراض کریں کہ میرا نظریہ غلط ہے کیوں کہ روحانی قوت کا تعلق قطعی طور پر عبادت سے ہے جب کہ ہپناٹزم کا تعلق کوئی تعلق عبادت سے نہیں ۔ اس وقت میرا مطلب چونکہ مذہبی مباحثہ نہیں بلکہ سائنسی تحقیقات کا اظہار ہے اس لئے میں اس جگہ کسی قسم کی بحث میں الجھے بغیر بتانا چاہتا ہوں کہ مقصد منزل ہے نا کہ طریقہ سفر۔ سفر خواہ ہوائی جہاز میں کیا جائے یا اونٹ پر، مقصد اس منزل کا حصول ہے ۔
روحانی قوت کو حاصل کرنے کے لئے مذہب نے چند مخصوص طریقے بتائے ہیں جن میں ایک ریاضت یا عبادت ہے جس طرح ہر شخص کسی مخصوص طریقہ پر عمل کئے بغیر روحانی قوت کا مالک نہیں بن سکتا اسطرح چند مخصوص اصول اپنائے بغیر ہپناٹزم کی قوت بھی حاصل نہیں کی جا سکتی ۔ اور پھر بالکل اسی طرح جس طرح ایک بہت زیادہ عبادت گزار انزان بھی وہ روحانی قوت حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے جو کسی دوسرے شخص کو حاصل ہوجاتی ہے اسی طرح بعض اوقات ہنپاٹزم کی قوت بھی ہر شخص کو آسانی سے حاصل نہین ہوتی اگر بہت کم ایسا ہوتا ہے عموماً اکثریت ایسے انسانوں کی ہے جو ہپناٹزم کی قوت حاصل کرلیتے ہیں۔
جب کہ مسلسل بسا اوقات وہ روحانی قوت حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں جبکہ بعض مذہبی اصولوں پر عمل کرنے کے باوجود اس حد تک نہیں پہنچ پاتے اس کی وجہ میں آگے چل کر بیان کروں گا یہاں پر صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرے نقطہ نظر میں قوت روحانی اور قوت ہپناٹزم میں کوئی فرق نہیں ہے
یا سوائے اس کے کہ اول الذکر مذہبی اصولوں پر عمل کرنے کا ماحصل ثانی الذکر سائنسی اصولوں پر عمل کرکے حاصل ہوتی ہے ۔(میرا ذاتی طور پر مصنف سے اتفاق نہیں ۔[محمدحسن]۔)۔
ہپناٹزم کیا ہے ؟
جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ہپناٹزم مجموعہ ہے اس قوت کا جو مذکورہ چار قوتوں کو حاصل کرلینے سے پیدا ہوتی ہے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اس قوت کا غیر ارادی طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتائج بھی دیکھتے ہیں مگر ہم میں سے اکثر کو یہ علم نہیں ہوتا کہ ہم نے اس قوت کو جزوی طور پر استعمال کیا ہے مثلاً جب کبھی کوئی بچہ گرجائے اور چوٹ کی شدت سے تلملانے لگے تو فوراً ہم اسے اٹھا کر اس کو سہلا کر اس کے رجحان کو منتقل کرنے کی سعی کرتے ہیں اس سے کہتے ہیں کہ وہ دیکھو کار جا رہی ہے یا پرندہ اڑ رہا ہے یا پھر اسے میٹھائی وغیرہ کالالچ دیتے ہیں اور بچہ چپ ہوجاتا ہے ۔
کیا اس طرح بچے کی چوٹ کی نوعیت بدل جاتی ہے ؟َ یا میٹھائی کی لالچ اس کے درد کی شدت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے ؟ نہیں!۔۔۔۔
بلکہ آپ بچے کے ذہن کو اس درد کی جانب سے بے بہرہ کردیتے ہیں مگر آپ نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ یہ چوٹ لگی ، بچہ رویا بھی ، مگر اتنی جلدی چوٹ کا احساس کیوں کر ختم ہوگیا ؟۔
شاید آپ نے یہ سوچا کہ چوٹ ووٹ نہیں لگی بچہ محض یوں ہی چِلّا رہا ہے اسی طرح آپ کو یہ تجربہ کبھی نہ کبھی ضرور ہوا ہوگا کہ رات کے وقت کسی سے سانپوں کی کہانی سنی یا کوئی کتاب پڑھی جس میں سانپوں کے زہریلے پن کا ذکر ہوا پھر آپ اس جگہ سے اٹھ کر کسی دوسرے تاریک کمرے میں گئے آپ کو یکایک محسوس ہوا کہ یہاں پر سانپ ہے اور آپ ٹھٹھک کر سہم گئے ہوں آپ کا سانس تیز ہوگیا ہو اور ممکن ہے کہ ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آگیا ہو پھر آپ نے فوراً ہی بتی روشن کرکے دیکھا ہو تو وہاں بجائے سانپ کے رسی کا ٹکڑا پڑا ہوا پایا ہو ۔ اور خدا نخواستہ اسی رسی کے ٹکڑے کے ساتھ کوئی سوئی یا پن لگی ہوتی اور آپ کو چبھ جاتی تو پھر ؟؟؟ ظاہر ہے کیا ہوتا۔۔۔۔
مجھے ایک دوست نے بڑا پرلطف قصہ سنایا کہ ایک بار رات گئے وہ یکایک جاگا اور اسے محسوس ہوا کہ ساتھ والے کمرے میں چور گھسا ہوا ہے اس نے فوراً اپنا پستول نکال لیا اور چوکنا ہو کر لیٹ گیا جیسے ہی چور کمرے میں داخل ہوگا فوراً گولی داغ دے گا مگر جب کافی انتظار کے بعد چور کمرے میں داخل نہ ہوا تو وہ مجبوراً آہستہ آہستہ سے اٹھا اور دوسرے کمرے میں جا کر بتی جلائی اور دیکھا مگر کوئی چور وہاں نہ تھا ۔
اس طرح اس نے یکے بعد دیگرے تمام کمروں کی بتیاں جلاڈالیں چور نہ ملنا تھا نہ ملا ۔ تاہم اس کا دل دھڑکے جا رہا تھا کہ کہیں چور چھپ گیا ہے لہٰذا وہ کافی رات گئے تک جاگتا رہا مگر صبح اس کو معلوم ہوا کہ کچھ بھی نہیں تھا محض واہمہ تھا ۔ "امیجی نیشن” تھی یعنی اس نے امیجی نیشن کے سہارے خود کو یہ یقین دلالیا کہ چور وہاں موجود ہے اس طرح اس نے وقتی طور پر خود کو ہپناٹائز کرلیا سب سے زیادہ اگر اور اہم مثال ہم کو ہپناٹائز کرنے کی محبت اور نفرت میں ملتی ہے آپ نے ایسی کئے لوگ دیکھے ہونگے جو محبت میں اسطرح کھوئے کہ دنیا بھلا بیٹھے اور ایسے بھی دیکھے ہوں گے جو کسی سے نفرت کرنے لگے ہوں گے اور باوجود کوشش کے وہ اس نفرت کے بیج کو دل سے نہ نکال سکے ۔
میں یہاں محبت کے اس افلاطونی فلسفہ میں الجھنا نہیں چاہتا جس پر فلسفیوں نے سینکڑوں کتابیں لکھ ماری ہیں میں صرف یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ دیوانگی کی بڑی وجہ کیا ہوتی ہے ۔ نفسیاتی طور پر محبت نام ہے پیاس کا ، تجسس کا ، ، جبلت جنسی کا مگر وہ لوگ جو محبت میں دیوانگی کی حد تک بڑھ جاتے ہیں درحقیقت ذہنی طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں دوسرے معنوں میں وہ اپنے آپ کو ہپناٹائز کرلیتے ہیں انہوں نے ایک شخصیت کو دیکھا اور پسند کیا اس کے بعد اس کے حصول کے لئے کوشاں ہوگئے ۔ اور دن رات اسی کے بارے میں سوچنے لگے ان کے لاشعور نے ان سے مسلسل تکرار کی کہ وہ بے انتہا حسین ہے تک اس کو حاصل کرو تم اس سے محبت کرتے ہو وہ تم کو نہ مل سکی تو تم پاگل ہوجاؤ گے تمہارا زندہ رہنا دشوار ہوجائے گا ۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اپنی محبت کا ذکر کرتے ہیں اپنے دوستوں سے اپنے عزیزوں سے اور رات کی تنہائیوں میں اس کا تصور کئے رات آنکھوں میں کاٹ دیتے ہیں اور اگر وہ شخصیت اان کی دسترس سے باہر ہے تو پھر ان کی محبت اشتیاق کی حدود سے گزر کر شکست کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے کیونکہ جبلی طور پر انسان شکست کا عادی نہیں ہے اس لئے ان کے لئے اس کے حصول کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے اس کا حصول ان کی فتح اور اس کا نہ ملنا ان کی شکست ہوجاتی ہے چنانچہ ان کا ذہن ان سے مسلسل یہ کہتا رہتا ہے کہ اس کو حاصل کرو ورنہ زندگی تباہ ہوجائے گی اس کا حصول تمہاری زندگی ہے اگر اس کو نہ پاسکے تو پاگل ہوجائے گے ان کے ذہن کی یہ مسلسل تکرار ان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے ۔ بسا اوقات ایسے لوگ شکست کھا کر شعوری طور پر بھول جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کا لاشعور یہ شکست برداشت نہیں کرتا وہ ان سے مسلسل یہ تقاضا کرتا ہے اور ان کو پاگل ہونے کی دھمکی دیتا رہتا ہے آخر کار ذہن کی یہ تکرار ان کو دیوانگی کی حدود میں لے جاتی ہے ۔
اسی طرح نفرت کے جذبے میں بھی ذہن میں مسلسل تکرار موجود ہوتی ہے ان کا ذہن مقابل شخص کے خلاف مسلسل اکساتا رہتا ہے اس شخص کا ہر فعل برا اور ہر بات ناقابل برداشت اور نفرت انگیز نظر آتی ہے ۔ یہ تمہارا دشمن ہے اس نے تمہارے حق میں کانٹے بوئے ہیں اور یہ تکرار ان کے دماغ کو اس قدر متاثر کرتی ہے کہ باوجود چاہنے کے اس کا تصور ان کے ذہن سے نہیں اترتا ۔ذہن کی مسلسل تکرار سے اپنے ذہن کو اس حد تک متاثر کرلینا ہی خود کو ہپناٹائز کرنا کہتے ہیں ۔
یہ ہپناٹزم جزوی ہوتا ہے لیکن اگر دیوانگی کی حد تک پہنچ جائے تو پھر میں اس کو مکمل ہپناٹزم ہی کہوں گا کیونکہ ان کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ ان کو دوبارہ ہپناٹائز کیا جائے اور محبت کے ماروں کے لئے ہپناٹزم کا عمل ایک آب حیات ہوتا ہے ۔
ان تمام مثالوں سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ ذہن کی مسلسل تکرار و ہدایت ۔۔۔۔ کی وجہ سے جو حالات رونما ہوتے ہوں ان کو ہپناٹزم سے تشبیہ دی جا سکتی ہیں۔
سانپوں کی جو مثال پیش کی گئی ہے اس پر غور کریں تو مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔
کوئی شخص ایک ایسا واقعہ پڑھتا ہے جس سے اس کا ذہن متاثر ہوتا ہے اور پھر اس واقعہ کے متعلق وہ لاشعوری طور پر سوچنے لگتا ہے اس مسلسل سوچ سے اس کے ذہن میں تخیلات کا ایک مسلسل چکر چلنے لگا ہے کیونکہ اس کاذہن سانپوں سے متاثر ہوا تھا اس لئے ذہنی طور پر وہ اس کو سانپ سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک دفعہ اگر اس نے رسی کو سانپ سمجھ لیا تو پھر اس سانپ کا نقشہ اس کے ذہن پر مسلط ہوجاتا ہے ہم اس کو امیجی نیشن کے نام سے پکارتے ہیں چنانچہ وہ اپنے تخیل کی مدد سے سانپ کو دیکھتا ہے اور پھر اس کی پھنکار بھی سن سکتا ہے یہ وہم اس کو پسینہ پسینہ کر دیتا ہے کیونکہ وقتی طور پر اس نے اپنے آپ کو ہپناٹزم کرلیا ہوتا ہے اس طرح دوسرا واقعہ چور سے تعلق رکھتا ہے میرے دوست نے نیند سے جاگتے ہی کچھ آہٹ سنی معاً اس کے ذہن میں چور کا خیال پیدا ہوا اور ایک دفعہ جب یہ تصور ذہن میں تقویت پکڑ گیا تو پھر چوروں کے ساتھ وابستہ ہر تصور اس کے ذہن میں ایک فلم کی طرح چکر لگانے لگا ۔ یہاں تک کہ صبح تک اس کا ذہن اس خیال سے متاثر رہا کیونکہ وقتی طور پر اس نے خوفزدہ ہو کر اپنے ذہن کو مفلوج کرلیا ۔ اس کے بعد ذہن نے مسلسل تکرار شروع کردی کہ چور موجود ہے ذہن کی اس تکرار نے تخیل کو اور تقویت دی جو یقین کی حد تک بڑھ گئی اس طرح اس نے اپنے آپ کو غیر ارادی طور پر ہپناٹائز کرلیا۔
آئندہ ماہ انشاء اللہ اس موضوع پر مزید کچھ پیش کروں گا